یہ بات 2012 کی ہے، جموں و کشمیر میں ایک فیض میلہ ہوا، مجھے کہا گیا پاکستان سے کچھ شاعروں کو یہاں لاؤ، یہاں فیض صاحب کا جنم دن مناتے ہیں اور داد و فریاد پاتے ہیں۔
جموں میں ہمارے دوست لیاقت جعفری میاں وہاں کے بادشاہ تھے اور ہمارے یارِ بے مہار۔ پاکستان سے ہم نے کچھ اپنی مرضی سے جگر کے ٹکڑے چُنے اور کچھ لیاقت جعفری کی مرضی سے پتھر کنکر اُٹھائے اور جموں کے لیے نکل لیے۔
ہوا یہ کہ سب احباب دو دن پہلے جموں پہنچے اور ہم یعنی مَیں اور سلیمیٰ ہاشمی (دخترِ فیض) دو دن بعد چلے کہ یہاں ہمارے کچھ کام کاج پھنسے ہوئے تھے۔ اِس بار شاہی پروٹوکول تھا، یعنی ہندوستان کا وزیرِ داخلہ بقلم خود فیض احمد فیض کا یارِخوش اطوار تھا۔ واہگہ پار ہوتے ہی مجھے اور سلیمیٰ ہاشمی کو سب نے ہاتھوں ہاتھ اُٹھا لیا۔ کسٹم نے سو، سو بلائیں لیں۔
سلیمیٰ نے وہیں سے دو چار تتے پانی کی بوتلیں پکڑ لیں اور ہم سے کہا، ’سفر لمبا ہے آپ بھی کچھ لے لیں، رستے میں شغل کرتے جائیے گا۔‘
ہم نے کہا، ’ہم تو صرف کشمیر لینا چاہتے ہیں!‘
اِس پر وہ چُپ سی ہو گئیں، جیسے کہتے ہوں میاں کھیلن کو چاند مانگتے ہو۔ چلیے پل کی پل میں ہم کسٹم وسٹم سے فارغ ہو گئے، پولیو کہ قطرے بھی نہ پلائے گئے۔ تین گاڑیاں پروٹوکول کے لیے آگے پیچھے ہو گئیں اور ایک جیپ میں ہمیں بٹھا لیا۔ گاڑیوں کے ہوٹر بجنے لگے، آس پاس کے لوگ ڈرنے لگے کہ کوئی بڑے صاحب جاتے ہیں۔ چاروں طرف ہراس پھیل گیا اور ہمارا دماغ پھیل کر آسمان کو چڑھ گیا، جسم البتہ وہی ساڑھے پانچ کا رہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سلیمیٰ کہنے لگیں، ’ناطق دیکھو پروٹوکول پاتے ہی کیسے ہماری جون بدل گئی ہے، انسانوں سے کایا کلپ ہو کر ایک دم سوروں میں چلے گئے ہیں۔‘
ہم نے کہا، ’بی بی مَیں نے تو دل میں گیارہ بار استغفار پڑھ لیا ہے۔‘
وہ بولیں، ’استغفار تو سدا کے پروٹوکولیے دن میں گیارہ سو بار پڑھتے ہیں۔ یہ کالکیں آیتوں سے نہیں دھلتیں!‘
تو جناب معاملہ یہ ہوا کہ دو گاڑیاں آگے اور ایک گاڑی ہمارے پیچھے۔ ہم چلے جاتے ہیں، چلتے جاتے ہیں، راہ بہت لمبی تھی۔ جہاں سے ایک تھانے والوں کا علاقہ ختم ہوتا تھا وہاں سے اگلی گاڑیاں ہمیں اُچک لیتیں اور چل سو چل۔ جب تھوڑی بھوک پیاس کا احساس ہوتا، فوراً از قسم ریوڑیاں اور ٹانگر کھانے کو حاضر کر دیے جاتے۔
کئی شہر آئے، کئی گاؤں آئے اور گزر گئے۔ راہوں میں غریب اور بے پروٹوکول کی مخلوق کیڑوں مکوڑوں کی طرح ہمیں تکتی اور پیچھے رہ جاتی تھی، ہم آگے بڑھ جاتے تھے۔ ایک مقام پر ہم رُکے، کہ وہاں سے ایک دریا، جسے راوی کہا جاتا ہے، اُس کا پانی پاکستان سے موڑ کر دو بڑی نہروں کے ذریعے ہندوستان کو پھیرا گیا تھا۔ پانی اتنا تھا جیسے نوح کا سیلاب ہو۔
وہاں کچھ دیر کے لیے رُک گئے۔ ہم دونوں نہروں کے بند پر چڑھ کر کھڑے ہوئے اور اُنھیں دیکھنے لگے۔ اتنا زیادہ پانی جو پاکستان کا حصہ تھا، ہائے ہم سے روک دیا گیا۔ سلیمیٰ ہاشمی اُسے دیکھتی جاتی تھی اور روتی جاتی تھی۔ آنسو اتنے زیادہ بہے کہ اُس کا سب گریبان بھیگ گیا۔
کہنے لگی، ’ناطق دیکھتے ہو انھوں نے ہمارے ساتھ کیا ظُلم کیا؟‘
اِدھر ہماری حالت اُن سے سِوا رنجور تھی۔ ہم نے کہا، ’بی بی آگے بڑھیے، یہ کربلا ہم سے نہیں دیکھی جاتی۔‘
رستے میں کئی اور دریا بھی آئے، وہ بھی ایسے ہی زنجیر ہوئے پڑے تھے، اُن کا پانی اپنے وطن پاکستان جانے کے لیے تڑپتا تھا مگر زبردستی کی دیواروں کے کوڑے مار مار کر اُن کا منہ پھیرا گیا تھا۔
قریب سہ پہر ہم جموں پہنچ لیے جہاں ہمارے سب یار و اغیار جمع تھے۔ لیاقت جعفری، خالد صاحب تو وہیں کے تھے۔ ہم سے دو دن پہلے وہاں اترنے والوں میں سید منظر نقوی، ایوب خاور، کشور ناہید، اُستاد حامد علی خاں اور اُن کا بیٹا نایاب تھا۔ اُن دِنوں وہاں پر مجلس اور ماتم داری بھی جاری تھی۔ یہ سب اُن میں شریک ہوا کیے۔
ہمارا جموں کشمیر میں پہنچنا تھا کہ ہندوستان بھر کی خفیہ ایجنسیاں اپنے تمام حسب و نسب کے ساتھ پیچھے ہو گئیں۔ ہم نے کہا میاں اگر ہماری ذات سے اتنی ہی گرانی تھی تو بلایا کاہے کو تھا؟
خیر وہاں کئی دن قیام رہا، لیاقت جعفری خاص مجھے، منظر نقوی اور سلیمیٰ ہاشمی کو سیر واسطے لیے لیے پھرے۔ جموں شہر سب پھر پھرا کر دکھایا، مندر دکھائے، مسجدیں دکھائیں اور دریائے جہلم کے کنارے کشمیر کے اُس راجہ کا محل دیکھا، جس کم بخت نے یہ سب رولا ڈلوا دیا جو آج تک نہ حل ہوا۔
یہ محل بہت خوب صورت اور کمال جگہ پر ہے، جموں والے تو روز دیکھتے ہیں، محل کے تین اطراف بہت بڑی پارک ہے اور چوتھی طرف کوئی دو سو گز نیچے دریا بہتا ہے۔ ایک دن شام کے وقت کشمیر کے وزیرِ اعلیٰ کے پرسنل سیکرٹری نے اپنے گھر دعوت کی۔ ہم سب پہنچ گئے۔
پہلے حامد علی خاں اور اُن کا بیٹا نایاب غزلیں گاتے رہے، ہم سُنتے رہے۔ وہیں کشمیر کے ایک اعلیٰ افسر کی بیوی رانی جی آئی ہوئی تھیں۔ بہت خوب تھیں اور پیے ہوئے تھیں۔ محفل جمی تھی۔ تب ہم بھی شکل و صورت کے خوب ہوتے تھے، چِکنے اور مرغوب ہوتے تھے، شاعر بھی سب پر بھاری تھے۔ ایک ہی دم رانی جی کے جی میں کیا آئی، ہمیں فوراً کھینچ کر پہلو میں دبوچ لیا اور منہ چومنے چاٹنے لگی، ہم بھی مزہ لینے لگے، لیکن تھوڑی ہی دیر میں اِیسی مستی میں آئی کہ ہمیں جان چھڑانا مشکل ہو گئی۔
کہنے لگیں، ’کتنے گورے ہو، خالص ایرانی رنگ لگتا ہے۔‘
کشور، سلیمیٰ، منظر نقوی اور سب چھوٹے بڑے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اور خوش ہو رہے تھے کہ ہمارے چھوکرے نے آخر کشمیر فتح کر ہی لیا، اِدھرہم فخر سے سینہ پھلاتے تھے کہ مومن ہو تو لڑتا ہے بے تیغ سپاہی!
بہت دیر جب ہم نے کشمیر میں گھوڑے دوڑا لیے تو ایک طرف ہٹنا چاہا مگر وہ پسپا نہ ہوتی تھی۔ آخر ہم ہی بھاگ کر پیچھے ہٹنے لگے، وہ پھر پکڑ لیتی تھی اور گلے سے بھینچ بھینچ لگاتی تھی۔ اُدھر محفل ِ موسیقی جاری تھی، اِدھر بھرپور چوما چاٹی اُس کی اور ہماری تھی۔
آخر جب مستی میں بات کچھ زیادہ ہی آگے بڑھنے لگی تو ہم زبردستی اُن سے الگ ہو ہی گئے کہ آگے آگ اور پانی کا کھیل تھا اور ہم مسافر تھے۔ اُس کے بعد کھانے کا دور چلا۔
اللہ اللہ یہ کوئی کھانا تھا! کشمیر کی روایتی ماکولات۔ چاول اور گوشت اور دہی کا ڈھیر۔ گوشت بھاپ سے پکا ہوا اور نہایت ہلکا، چاول سفید اور نرم بہت، اِس کے علاوہ بیسیوں طرح کا گوشت اور سبزیاں۔ ہمیں تین تین کو نیچے بٹھا دیا اور آگے کھانے کی پہاڑی لگا دی۔
اللہ جانے تین بندوں کے آگے اتنا کھانا جمع کر دیا کہ ایک ہاتھی کو بہت تھا، ہم روکتے تھے کہ میاں اور مت رکھنا لیکن وہ کہتے بھائی آپ ٹکنا مت، بس کھاتے جاؤ۔
لیجیے میاں، پیٹ بھر گیا، سینے بھر گیا، حلق بھر گیا، منہ بھر گیا، تب کہیں ہم نے سجدہ سجود اور منت ترلے کر کے اُنھیں روکا اور وہ ٹلے۔
رات دو بجے واپس ہوٹل کو چلے۔ رانی جی نے ہمیں پھر پکڑ لیا۔ کہنے لگی، ’تمھیں مَیں بقلم خود ہوٹل چھوڑوں گی۔‘
ہم نے لیاقت جعفری کا دامن تھام لیا۔ کہا، ’یہ ہمارے ساتھ چلے گا تو آپ کی گاڑی میں بیٹھوں گا۔‘
آخر اُس نے ہماری بات مان ہی لی۔ تب مَیں اُس کی گاڑی میں بیٹھا، رستے میں تھوڑی دیر کو وہی چوما چاٹی کا عمل اعمال اُس نے گاڑی میں کیا مگر ڈرائیور کے سبب زیادہ ہاتھ دراز نہ کیا۔ تب تک نشہ بھی چاک ہو چکا تھا۔
یہ افسر کی بیوی تھی یا وزیر اعظم۔ چھ گاڑیاں اُس کے پروٹوکول کو آگے پیچھے تھیں یعنی یہ بھائی لوگ اِس طرح کے بھانڈ پن میں ہم سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔
ہوٹل میں دوسرے اور تیسرے دن بھی ایجنسی والوں کے پھیرے تھے۔ ہماری ایک ایک حرکت پر کان کھڑے کرتے تھے اور کان پکڑتے تھے۔
ہاں ارے بھیا، ہم نے کشمیر کے مشاعرے کا حال تو سنایا ہی نہیں، ہم سٹیج پر تھے اور کوئی چار، پانچ ہزار کا مجمع سامنے تھا۔ ہمارے ہاں سے ایک شاعر عزیر آزر اللہ جانے وہاں کیسے پہنچا تھا، وہ سٹیج پر جا کر سیکرٹری ہو گیا اور سپیکر کے ساتھ ایسے چمٹ گیا جیسے ایلفی لگ جائے۔ چھوڑ ہی نہ رہا تھا۔ کبھی یہ نظم، کبھی وہ نظم، کبھی لطیفے۔
جب مَیں نے دیکھا کہ یہ بندہ ہمیں فل بےعزت کروانے کے چکروں میں ہے تو اُٹھ کر اُسے بڑی مشکل سے سپیکر سے کھینچ کھانچ کر الگ کیا۔ تب لیاقت جعفری نے بات آگے بڑھائی۔
پہلی بار وہاں ہم نے اپنی نظم ’سفیرِ لیلیٰ‘ سنائی، کسی کی سمجھ میں آئی کسی کے نہ آئی مگر داد سب سے پائی۔
وہیں ایک انڈین پنجاب پولیس کا آئی جی تھا محمد فاروق نام کا اور شاعر تھا۔ خدا شاہد ہے بہت بُرا شاعر تھا، ہمارا شاگرد ہونا چاہتا تھا۔ ہم نے کہا، ’میاں تم اُدھر ہم اِدھر۔ کسی سکھ سے یارانہ کرو۔‘ بعد میں بھی بہت دیر ہمیں اپنی غزلیں بھیجتا رہا۔ سُنا ہے بعد میں وہ اُن کی انٹیلیجنس ایجنسی کا کوئی چیف بن گیا تھا۔
سب پاکستانی شاعروں نے بہت داد سمیٹی مگر جن سے توقع تھی یعنی ایوب خاور سے کہ بہت داد لے گا، وہ بے داد رہا، منظر نقوی مزے کی بات ہے بہت داد کے منافع میں رہا۔
پاکستان آنے کے کچھ دِنوں تک ہماری رانی جی سے بہت گفتگو رہی۔ کہنے لگی، ’ہم سے شادی کر لو۔‘
ہم نے کہا، ’جہیز میں کشمیر چاہیے۔‘
بولی، ’اس کے لیے تو آپ کو پوری ٹینکوں اور توپوں کی بارات لانی پڑے گی۔‘
ہم نے کہا، ’یہ تو ہمارے بس میں نہیں فقط جرنیلوں کے کہنے میں ہے اور جرنیل ہمارے کہنے میں نہیں۔‘
بولی، ’پھر کشمیر رہنے دو مجھے لے جاؤ۔‘
ہم نہیں مانے۔ آخر ہم نے زندگی میں کچھ اور کام بھی کرنے تھے۔
- - - باقی اگلی قسط میں