ہیلی کاپٹر واپس کیوں جا رہے ہیں؟ لفٹ میں پھنسے شخص کا سوال

ہیلی کاپٹرز کو واپس جاتے دیکھ کر چیئر لفٹ میں پھنسے گل فراز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شام ہونے والی ہے، ہمیں بتائیں کہ ہیلی کاپٹر واپس کیوں جا رہے ہیں۔‘

صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع الائی میں پاشتو کے مقام پر 22 اگست کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد چیئر لفٹ میں پھنسے افراد کو بچانے کے لیے جاری ریسکیو آپریشن کو دیکھ رہے ہیں (اے ایف پی)

’شام ہونے کے قریب ہے ۔ ہمیں بتائیں کہ ہیلی کاپٹر واپس کیوں جا رہے ہیں؟‘

یہ کہنا تھا گل فراز نامی اس شخص کا جو صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع الائی میں پاشتو کے مقام پر منگل کی صبح تار ٹوٹنے سے چیئر لفٹ میں پھنس چکے ہیں۔

چیئرلفٹ میں پھنسے آٹھ افراد جن میں چھ بچے بھی شامل ہیں کو بچانے کی کوششیں تاحال جاری ہیں۔

ضلع بٹگرام کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر(ریلیف) سید حماد اکبر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ بچوں کے ریسکیو کرنے کے لیے آئے ہیلی کاپٹرز کو ابھی گراؤنڈ کر دیا گیا ہے کیونکہ ہیلی کاپٹر کے پریشر سے ڈولی ہلنے کا خطرہ ہے۔

ہیلی کاپٹرز کو واپس جاتے دیکھ کر چیئر لفٹ میں پھنسے گل فراز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شام ہونے والی ہے، ہمیں بتائیں کہ ہیلی کاپٹر واپس کیوں جار ہے ہیں۔‘

یہ بچے سکول جانے کے لیے چیئر لفٹ کا استعمال کر رہے تھے۔ شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک دور افتادہ پہاڑی علاقے میں سفر کے دوران تقریباً 1200 فٹ (تقریبا 365 میٹر) کی بلندی پر کیبل ٹوٹ گئی۔

جس گاؤں میں بچے اور اساتذہ پھنسے ہوئے ہیں، وہاں کے رہائشی شفیق اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لفٹ میں پھنسے ایک استاد کے ساتھ رابطہ ہوتا تھا لیکن اب ان کے موبائل میں چارج ختم ہوگیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’علاقہ مکین بڑی تعداد میں جمع ہے لیکن کوئی کچھ نہیں کر سکتا ہے کیونکہ ریسکیو کرنا بہت مشکل ہے۔‘

شفیق اللہ نے بتایا کہ ‘ریسکیو1122 اور ضلعی انتظامیہ کے افسران موقع پر موجود ہے لیکن ابھی تک ہیلی کے علاوہ کسی دوسرے اپشن پر نہیں پہنچے ہے۔’

کسی بھی بڑے قصبے سے کئی گھنٹے کے فاصلے پر واقع اس کھائی کے دونوں طرف لوگ کا ہجوم پریشانی کے عالم میں اکٹھا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہیڈ ماسٹر علی اصغر خان نے اے ایف پی کو فون پر بتایا ہے کہ یہ بچے ان کے سرکاری ہائی سکول بٹنگی پشتو کے نو عمر طلبہ ہیں۔

علی اصغر خان کا کہنا تھا کہ ’سکول پہاڑی علاقے میں واقع ہے اور وہاں جانے کے لیے کوئی محفوظ راستہ نہیں ہے۔ لہٰذا چیئر لفٹ کا استعمال عام ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’والدین چیئر لفٹ کے مقام پر جمع ہیں۔ وہ کیا کر سکتے ہیں؟ وہ اپنے بچوں کو بچانے کے لیے ریسکیو اہلکاروں کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم سب فکرمند ہیں۔‘

علاقے کے ایک اور سکول کے استاد عابد الرحمان نے بتایا کہ تقریباً پانچ سو افراد امدادی کارروائیاں دیکھنے کے لیے جمع ہیں۔ ’والدین اور خواتین اپنے بچوں کی سلامتی کی دعائیں کر رہے ہیں۔‘

اس سے قبل گل فراز نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ چھ بچے اور دو افراد صبح چھ بجے چیئر لفٹ میں سوار ہوئے تھے۔ ’سات بجے چیئر لفٹ کی پہلی رسی اور پھر دوسری بھی ٹوٹ گئی۔ ’چیئر لفٹ ایک میل چلی تو پہلی رسی ٹوٹی۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہم صبح سے مدد کے منتظر ہیں۔ چیئر لفٹ میں ہم آٹھ لوگ موجود ہیں، اس میں موجود بچوں کی عمر دس سے 13 سال کے درمیان ہے۔‘

گل فراز نے مزید بتایا کہ ہمیں اس چیئر لفٹ میں پھنسے پانچ گھنٹے ہو گئے ہیں۔ ’چیئر لفٹ میں ایک لڑکا تین گھنٹے سے بے ہوش ہے۔ یہ لڑکا دل کے عارضے میں مبتلا ہے اور ہسپتال جا رہا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان