انڈیا کے شہر بنگلور میں مقیم پریتھی کو خواجہ سرا ہونے کی وجہ سے 10 سال قبل گھر سے نکال دیا گیا تھا۔ اس شہر میں بہتر مستقبل کی امید تھی۔
لیکن 38 سالہ پریتھی کو مستقل کام نہیں مل سکا۔ اس 10 سال کے زیادہ تر عرصے میں، پیسہ کمانے کا ان کا بنیادی طریقہ شہر کی سڑکوں پر بھیک مانگنا تھا جس کی وجہ سے وہ بدسلوکی اور پرتشدد جرائم کا شکار ہو گئیں۔
وہ اس سب کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’میں اب مزید اس طرح کی زندگی نہیں چاہتی تھی۔‘
پھر گذشتہ سال مارچ میں، انہیں حالات بدلنے کا موقع ملا جب انہیں ان کے اپنے الیکٹرک رکشہ کی چابیاں ملیں اور انہوں نے گزر بسر کے لیے اس رکشے کو بنگلورو کی ٹریفک جام کا شکار سڑکوں مسافروں کو لانے لے جانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
وہ اب انڈیا میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے لاکھوں مالکان میں سے ایک ہیں، لیکن وہ ان بہت کم لوگوں میں سے ایک ہیں جنہیں عطیے کی شکل میں کوئی الیکٹرک گاڑی ملی۔
پریتھی کی زندگی کو کامیابی کی کہانی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جیسا کہ انڈیا زمین کے ماحول کا درجہ حرارت بڑھانے والی گیسوں کے اخراج کو اس طرح کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس سے کمزور اقتصادی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو فائدہ پہنچے۔ اس اقدام کو ’درست طریقے‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت آسمان کو چھو رہی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ ہر کوئی صاف توانائی کے لیے ان بڑے اقدامات سے فائدہ اٹھائے۔ ان حالات میں کہ جب الیکٹرک گاڑیوں کے عطیات بہت کم ہیں، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اور حکومتی پروگرام تربیت، ملازمتوں اور سستی ٹرانسپورٹ کے ذریعے کم آمدنی والے افراد کو بھی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
شیشو مندر نامی رفاہی ادارے، جس نے پریتھی کو الیکٹرک رکشے کا عطیہ دیا، کو خواتین اور خواجہ سراؤں کو بجلی سے چلنے والی چھوٹی گاڑیاں دینے کے لیے عطیات موصول ہوئے تھے، جنہیں وہ رائیڈ سروس کے طور پر استعمال کر سکیں۔
اس فلاحی ادارے نے پریتھی سے پوچھا کہ کیا وہ الیکٹرک رکشہ لینے میں دلچسپی رکھتی ہیں اور جب انہوں نے مثبت جواب دیا تو ادارے کی ٹیم نے انہیں تربیت فراہم کی، ڈرائیونگ لائسنس دلوایا اور الیکٹرک رکشہ ان کے نام پر رجسٹر کروا دیا۔
تنظیم کے سیکریٹری سی آنند کے مطابق: ’ہم چاہتے تھے کہ اس پروگرام سے دوہرے فوائد حاصل ہوں۔ آلودگی کم کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین اور ٹرانس جینڈرز کو بھی بااختیار بنایا جا سکے۔‘
گذشتہ سال مارچ سے اب تک اس ادارے نے 17 الیکٹرک رکشے عطیہ کیے ہیں اور آئندہ دو ماہ میں مزید پانچ رکشے عطیہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو تربیت اور لائسنس بھی فراہم کیے جائیں گے۔
بنگلورو میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار سٹڈی آف سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ پالیسی میں سٹریٹجک سٹڈیز کے شعبے کے سربراہ این سی تھیروملائی نے کہا کہ منصفانہ طریقہ کار کے مطابق ’مقامی برادریوں کو ان ملازمتوں کا اہل بنانے کے لیے، جس کی پیشکش صاف توانائی کا شعبہ کرتا ہے، تربیت بہت اہم ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وفاقی سطح پر سکل انڈیا پروگرام جیسے روزگار کی تربیت کے منصوبوں کو صاف توانائی کی ملازمتوں کے لیے تیار کارکنوں پر مرکوز کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر آٹو انڈسٹری کے لوگوں یعنی مینوفیکچررز سے لے کر مکینکوں تک کو دوبارہ تربیت دینے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم لاکھوں لوگوں کو پیچھے چھوڑ دینے کا خطرہ مول لیں گے۔‘
پریتھی نے تربیت مکمل کرنے کے بعد کام شروع کیا تو خوف اور جذبہ دونوں موجود تھے۔ کچھ مثبت ابتدائی تجربات کے بعد خدشات جلد ہی ختم ہو گئے۔
پریتھی کے بقول: ’مجھے مسافروں کے بارے میں زیادہ یاد نہیں لیکن وہ پہلے چند لوگ جنہیں میں لے کر گئی ان سب کا رویہ اچھا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے مسافروں کا کہنا تھا کہ انہیں ایک خواجہ سرا کو الیکٹرک رکشہ چلاتے ہوئے دیکھ کر خوشی ہوئی۔ پریتھی کو کچھ برے بھی تجربات ہوئے لیکن ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ’اس طرح کے مردوں سے نمٹنے کا طریقہ سکھا لیا ہے۔‘
اس طرح ڈٹے رہنے کا فائدہ ہوا: ان کے نئے روزگار کا مطلب ہے کہ وہ اپنے گھر کے اخراجات برداشت کر سکتی ہیں، قرض ادا کر سکتی ہیں اور اپنی زندگی میں پہلی بار ہر مہینے بچت کر سکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے کسٹمرز کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔
پریتھی کہتی ہیں کہ میرے پاس باقاعدگی سے سفر کرنے والے لوگ ہیں جن میں سبزی فروشوں سے لے کر میرے پڑوس میں رہنے والی وہ مائیں شامل ہیں، جو اپنی بیٹیوں کو میرے ساتھ سکولوں اور کالجوں میں بھیجنا پسند کرتی ہیں۔‘
اب وہ ایک دن میں دو ہزار انڈین روپے (24 ڈالر) تک کماتی ہیں اور ان کے اخراجات بہت کم ہیں کیوں کہ انہیں پیٹرول نہیں خریدنا پڑتا اور رکشے کی دیکھ بھال بہت کم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک چارج سے90 کلومیٹر (56 میل) سے زیادہ سفر کر سکتی ہیں۔
لیکن ’پیسے سے زیادہ معاملہ اس عزت کا ہے جو مجھے اب معاشرے میں ملتی ہے۔ میں اپنی مالک خود ہوں۔ کام مشکل ہے لیکن اس سے مستقل آمدن ہوتی ہے۔‘
35 سالہ ہیلینا کرسٹینا، جو بنگلورو میں رہتی ہیں اور نو افراد کی فیملی کی واحد کفیل ہیں۔ انہیں بھی شیشو مندر نے برقی رکشہ کا عطیہ دیا۔ انہیں ناخوشگوار شادی کی وجہ سے راہ فرار اختیار کرنی پڑی۔ اگرچہ انہیں لوگوں کے گھروں کی صفائی کا کچھ کام مل گیا، لیکن وہ اتنا نہیں کما سکیں کہ اپنے بڑے خاندان کی کفالت کر سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کرسٹینا کا کہنا تھا کہ الیکٹرک رکشہ ہی ان کے خاندان اور انتہائی غربت کے درمیان کھڑا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں روزانہ 10 گھنٹے سے زیادہ کام کرتی ہوں لیکن مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ میرے بچوں، والدین اور فیملی کا انحصار مجھ پر ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ منصفانہ منتقلی میں خیراتی ادارے بہت کم کردار ادا کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑی کارپوریشنوں اور سرکاری منصوبوں کے ذریعے الیکٹرک گاڑیاں دی جائیں جس طرح پریتھی اور کرسٹینا کو ملیں۔
تھیروملائی کا کہنا تھا کہ ’تمام انڈین شہریوں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر صاف توانائی کی طرف منتقلی کے لیے ہر کسی کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔‘ اگرچہ انڈیا کی وفاقی حکومت کے پروگرام اور سبسڈیز الیکٹرک گاڑیوں کو سستی بنانے میں کردار ادا کر رہے ہیں ’نجی شعبہ یقینی طور پر مزید کام کرسکتا ہے تاکہ منتقلی کا فائدہ زیادہ وسیع پیمانے پر ہو۔‘
انہوں نے مشورہ دیا کہ کمپنیاں اپنی ای وی فیکٹریوں کے قریب رہنے والے لوگوں کے لیے تربیت میں سرمایہ کاری کریں تاکہ انہیں ملازمت مل سکے اور فرمیں مسابقتی طور پر ای وی کی قیمت مقرر کریں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے سستی ہوں۔
پریتھی نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ الیکٹرک گاڑیاں استعمال کریں۔ خاص طور پر ٹرانس جینڈر خواتین۔ دریں اثنا انہیں امید ہے کہ وہ رکشہ چلانے سے حاصل ہونے والی آمدنی سے مستقبل میں بڑی الیکٹرک گاڑی خریدنے کے قابل ہو جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں آخر کار ایک الیکٹرک کار خریدنا چاہتی ہوں اور اسے ٹیکسی کے طور پر چلانا چاہتی ہوں۔ یہ میرا اگلا مقصد ہے۔‘