رواں سال کے آغاز میں کراچی کے لیے شروع کی گئی بجلی سے چلنے والی بسوں (الیکٹرک بسوں) کی سروس سے شہر قائد کے باسیوں کو سفر کی سہولت میسر آئی ہے۔
شہری عمران علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سندھ حکومت کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ کہ بس کا سفر آرام دہ ہے جبکہ کرایہ بھی مناسب ہے۔ ’پہلے مجھے منزل تک پہنچنے میں 70 روپے لگ جایا کرتے تھے لیکن اب صرف 50 روپے۔‘
شہریوں کے آرام اور سستے سفر کے باوجود سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کراچی شہر میں بجلی سے چلنے والی یہ جدید بسیں کامیاب ہو سکیں گیں؟
اسی حوالے سے ماہر توانائی ابو بکر اسماعیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’کراچی میں ماضی میں جتنی بھی بسیں متعارف کرائی گئیں ان کی ناکامی کی وجہ بیڈ گورننس تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ سندھ کا ماس ٹرانزٹ ڈپارٹمنٹ، جو کئی ناموں سے کام کرتا رہا ہے، وہ ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے میں کبھی بھی فعال نہیں رہا، جب کہ حکومت کی جانب سے جو منصوبے بھی متعارف کرائے گئے وہ پائیدار ثابت نہیں ہوئے اور پھر حکومت ایک خاص مدت کے بعد سبسیڈی ختم کر دیتی ہے اور یوں یہ منصوبے بھی ٹھپ ہو جاتے ہیں اور پھر کوئی نیا منصوبہ آ جاتا ہے۔
ابو بکر اسماعیل کا کہنا تھا کہ حکومت پروجیکٹ کا آغاز تو کر دیتی ہے لیکن اس کی دیکھ بھال کا بندوبست نہیں کرتی۔ ’یہاں اس ٹیکنالوجی کی مینٹیننس کا ہمارے پاس کاریگر موجود نہیں ہوتے۔
’بیرون ملک بجلی سے چلنے والی ٹرانسپورٹ اس لیے کامیاب ہے کہ وہ خود الیکٹرک بسیں بناتے ہیں۔ اگر پاکستان میں بھی الیکٹرک بسیں بننا شروع ہو اور یہی مرمت کا کام بھی ہو تو بس پروجیکٹ کامیاب ہو سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماحولیاتی آلودگی
ماہر ماحولیات رفیع الحق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ کراچی میں الیکٹرک اور ہائبرڈ بسیں متعارف کروانا ماحولیاتی آلودگی دور کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
’یہ ایک کاسمیٹک منصوبہ ہے۔ 500 بسوں کی شہر کو ضرورت ہے اس وقت جتنی تعداد میں بسیں سڑکوں پر ہیں وہ ماحول میں فضائی آلودگی ک خاتمہ نہیں کر سکتی۔ دھواں دینے والی بسیں بہت زیادہ ہیں۔‘
جبکہ ڈپٹی ڈائریکٹر ماس ٹرانزٹ بشیر حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں یقین دہانی کروائی کہ الیکٹرک بسیں ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کا باعث بنیں گی۔
’اس وقت 30 بسیں سڑکوں پر ہیں جبکہ وزیراعلیٰ سندھ نے 50 کروڑ روپے کی گرانٹ کراچی کے انفراسٹرکچر کے لیے دے رکھی ہے۔‘
انکا مزید کہنا تھا کہ ’ای وی آپریشن کے متعلق پہلے سے طے ہوا تھا کہ اس کے لیے متبادل توانائی کا استعمال کیا جائے گا۔ ’یعنی ہم شمسی توانائی کا استعمال کریں گے۔ فی الحال جنریٹرز سے کام چلایا جا رہا ہے لیکن متبادل توانائی پر بھی کام جاری ہے۔‘