اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کو اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کرنے پر توہین عدالت کیس میں جمعرات کو ڈپٹی کمشنر اسلام آباد، ایس ایس پی آپریشنز، ایس پی اور ایس ایچ او پر فرد جرم عائد کر دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے جمعرات کو شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کے خلاف ایم پی او آرڈر جاری کرکے اختیارات سے تجاوز پر توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران ڈی سی اسلام آباد عرفان نواز میمن، ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ایاز شوکت بطور پراسیکیوٹر عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور ڈی سی اسلام آباد اور ایس ایس پی آپریشنز کی جانب سے وضاحتی جواب جمع کرواتے ہوئے ’غیر مشروط معافی‘ مانگی۔
ایڈوکیٹ جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’افسران نے غیر مشروط معافی مانگی ہے، لہذا فرد جرم عائد نہ کی جائے۔‘
جس پر جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ ’کیسے فرد جرم عائد نہ کریں؟ توہین عدالت کا معاملہ یہاں چل رہا تھا، پھر بھی آپ ایم پی او آرڈر جاری کرتے ہیں۔ آج فرد جرم عائد کرنے کے لیے مقرر ہے، اس کیس میں چھ ماہ کی قید ہے، آپ بھی کچھ عرصہ جیل میں رہ لیں، آپ کو بھی معلوم ہو کہ دوسرے کیسے جیل میں رہتے ہیں۔ اب جو کچھ بھی ہے، آپ نے ٹرائل میں ثابت کرنا ہے۔‘
جسٹس بابر ستار نے کھلی عدالت میں چارج پڑھا اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن پر فرد جرم عائد کردی، تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔
اس کے بعد ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کا آغاز کیا گیا، لیکن انہوں نے بھی صحت جرم سے انکار کیا۔
ایس پی فاروق بٹر اور ایس ایچ او ناصر منظور پر بھی فرد جرم عائد کی گئی اور دونوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔
عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ دفاع پیش کرنا چاہتے ہیں؟ جس پر ایس ایس پی آپریشنز نے جواباً کہا کہ ’مجھے وقت دے دیا جائے۔‘
عدالت نے وکیل قیصر امام کو توہین کیس میں پراسکیوٹر تعینات کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
کیس میں کب اور کیا ہوا؟
پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی کو رواں برس نو مئی کے واقعات کے بعد اور شاندانہ گلزار کو 10 اگست کو اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا تھا۔
16 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کا حکم نامہ معطل کرتے ہوئے ان کی مشروط رہائی کا حکم دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود شہریار آفریدی کی ایم پی او تھری کے تحت گرفتاری پر ڈی سی اسلام آباد اور ایس ایس پی آپریشنز کے خلاف توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
عدالت نے تحریری حکم نامے میں لکھا تھا کہ بادی النظر میں ڈی سی اسلام آباد نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی اور عدالت کا آرڈر ایگزیکٹو پر لازم نہ ہونے کا تاثر دے کر نظامِ انصاف کو نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی۔
عدالت نے شوکاز نوٹس پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ایس ایس پی آپریشنز کے تحریری جوابات کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔ بعد ازاں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے سنگل بینچ کے فیصلے کو ڈویثن بینچ میں چیلنج بھی کیا لیکن رجسٹرار آفس نے اعتراضات لگا دیے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اعتراضات کے ساتھ سماعت کی لیکن ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی انٹرا کورٹ اپیل پر اعتراضات برقرار رکھے۔
رواں برس 28 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی آپریشنز کو فرد جرم کے لیے طلب کیا تھا، لیکن ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کی عدم دستیابی پر گذشتہ سماعت پر فرد جرم عائد نہ ہو سکی۔