’دسترخوان پر بیٹھے تھے کہ فائرنگ شروع ہوئی۔ بچے چیخ رہے تھے کہ بابا ہمیں بچائیں، بابا ہمیں بچائیں۔ میں دلاسہ دے رہا تھا کہ کچھ نہیں ہوگا۔‘
یہ کہنا تھا ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے ریحان محمد کا جو 21 نومبر کو مسافر گاڑیوں پر ہونے والی فائرنگ اور اس کے بعد بگن گاؤں میں جلاؤ گھیراؤ کے عینی شاہد ہیں۔
پشاور پریس کلب کے رکن ریحان محمد ان دنوں اپنی صحافتی ذمہ داریوں میں مصروف تھے لیکن گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ کے اگلے ہی دن یعنی 22 نومبر کو پرتشدد کارروائیوں کی آگ ان کی دہلیز تک بھی پہنچ چکی تھی۔
ریحان محمد گذشتہ روز اپنی فیملی کو لیے باحفاظت پشاور پہنچے ہیں لیکن جن مشکلاف کے ساتھ انہوں نے وہاں اپنے گھر والوں کو بچایا ہے، اس کی پوری داستان انہوں نے پہلی بار انڈپینڈنٹ اردو کو بتائی ہے۔
انہوں نے 22 نومبر کو بگن کے علاقے میں مسلح افراد کی جانب سے بازار جلانے اور بگن کے علاقے میں گھروں کو نذر آتش کرنے کے دوران اپنی فیملی کو بچایا ہے۔
’میں شام کے وقت اپنی اہلیہ، تین بچوں اور والدین کے ہمراہ دسترخوان پر بیٹھا کھانا کھا رہا تھے کہ ہم نے شدید فائرنگ کی آوازیں سنیں۔
’فائرنگ سنتے ہی چیخ و پکار کی آوازیں بھی ہم نے سنیں اور جب رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ مسلح افراد گاؤں اور بگن بازار کو جلا رہے ہیں۔‘
ریحان محمد نے بتایا کہ ’سب سے زیادہ تکلیف تب ہوئی جب میرے بچے چیخ کر مجھے کہہ رہے تھے کہ بابا ہمیں بچائیں، یہ لوگ ہمیں مار دیں گے۔ میں دلاسہ دے رہا تھا کہ کچھ نہیں ہوگا اور اللہ خیر کرے گا لیکن خواتین اور بچے چیخ رہے تھے۔‘
’اس کے بعد نظر والدہ پر پڑی تو وہ بیٹا بیٹا کہہ کر مجھے دلاسہ دے رہی تھیں اور میں انہیں دلاسہ دے رہا تھا، یہ لمحہ کبھی بھی میں بھول نہیں پاؤں گا جب میری والدہ مجھے بوسہ دے رہی تھیں کہ بیٹا اللہ خیر کرے گا اور آپ کو کچھ بھی نہیں ہوگا۔‘
سب سے پہلے ریحان کے مطابق میں نے قریبی گاؤں میں رشتہ داروں کو کال کر کے بچوں اور خواتین کو نکالنے کے لیے گاڑی طلب کی اور گاڑی پہنچتے ہی سب خواتین اور بچوں کو اس میں بیٹھا دیا لیکن والد اور والدہ بضد تھے کہ وہ گھر سے نہیں جائیں گے۔
’میں والدین کے ساتھ رک گیا اور بچے، خواتین کو نکال دیا لیکن تھوڑی دیر بعد ہی ہماری گھر پر فائرنگ شروع ہوئی اور میں نے بیمار والدہ کو گود میں اٹھا کر دیوار کے نیچھے چھپ کر باہر نکل گیا۔‘
ریحان محمد کے مطابق ’باہر نکلتے ہی فائرنگ کی وجہ سے گھر کے قریب نکاسی آب کی ایک بڑی نالی تھی، اسی میں والدہ کے ساتھ سر نیچھے کر کے چھپ گئے اور پھر رینگتے ہوئے آگے نکلے۔‘
اسی دوران ریحان کے مطابق ایک گاڑی جا رہی تھی جنہوں نے ہیڈ لائٹس آن کر رکھی تھیں۔ ’تو میں نے انہیں ہیڈ لائٹس آف کرنے کا کہا تاکہ فائرنگ رک سکے اور اندھیرا ہو جائے۔‘
’ہم مشکل سے قریبی پہاڑی کی طرف چلے اور وہی پر پناہ لی اور فائرنگ رک جانے کے بعد والدہ کو رشتہ داروں کے ہاں پہنچا دیا لیکن فکر مجھے والد کی تھی جو گھر میں ٹھہرنے پر بضد تھے۔
دو گھنٹے بعد ریحان کے مطابق جب وہ اپنے گھر آئے تو گھر پر آگ لگی تھی۔ ’ہم نے آگ بجھانے کی کوشش کی لیکن آگ کی شدت زیادہ تھی اور پانی کی کمی کی وجہ سے ہم آگ بجھانے میں ناکام رہے۔
’ہم نے اپنی آنکھوں سے گھر کو راکھ ہوتے دیکھا مگر کچھ کر نہ سکے۔ گھر میں گائے اور دیگر مال مویشی بھی جل گئے اور بعض کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی دوران ریحان محمد کے مطابق والد کے زندہ ہونے کی خبر ملی۔ ’میرے والد نے اچھا کام یہ کیا تھا کہ وہ فائرنگ اور گھر جلنے کے دوران قریبی پہاڑی پر جا کر چھپ گئے تھے اور خود کو بچا لیا تھا۔‘
ریحان کے مطابق ماضی میں بگن کا علاقہ زیادہ تر پرامن رہا ہے اور یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پہلے گاڑیوں کے قافلے پر حملہ ہوا جس میں 42 افراد جان سے گئے اور اس کے بعد اسی علاقے میں مسلح افراد نے بازار اور گھروں میں جلاؤ گھیراؤ کیا۔
ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے مطابق بگن میں جلاؤ گھیراؤ اور بعد میں جھڑپوں کے نتیجے میں 24 افراد جان سے گئے ہیں۔
کرم میں صورت حال کیا ہے؟
ریحان محمد بتاتے ہیں کہ کرم میں حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کرم میں کرفیو جیسا سماں ہے، ہسپتالوں میں ادویات کی کمی، بازار بند اور کمیونیکیشن کا نظام درہم برہم ہے۔
’علاقے سے لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہے جو محفوظ مقامات کی طرف جا رہے ہیں۔ صرف گھر میں سامان کی حفاظت کے لیے گھر کے ایک دو مرد رک گئے ہیں۔‘
ضلع کرم میں 21 نومبر کو گاڑیوں کے قافلے کے حملے کے بعد فریقین کے مابین جھڑپیں جاری ہیں اور ہسپتال اور پولیس ذرائع کے مطابق گاڑیوں کے قافلے پر حملے اور جھڑپوں میں مجموعی طور پر 105 افراد جان سے گئے ہیں۔
ان میں اپر کرم کے پاڑہ چنار ضلعی ہسپتال کے ذرائع کے مطابق 47 میتیں پاڑہ چنار ہسپتال لائے گئے ہیں لیکن یہ قافلے پر حملے میں ہونے والی 42 اموات کے علاوہ ہے۔
اسی طرح لوئر کرم کے مندوری ہسپتال میں 16 میتیں لائی گئی ہیں۔ ان تمام جھڑپوں میں زخمیوں کی تعداد اپر اور لوئر کرم کے ہسپتال ذرائع کے مطابق 150 سے زیادہ ہے۔