سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ہماری زمین سے باہر بھی کئی ایسی دنیائیں ہیں جہاں کرہ ارض سے بھی زیادہ پھلتی پھولتی زندگی موجود ہے۔
یہ نیا مطالعہ خلائی مخلوق کو تلاش کرنے کے ہمارے طریقہ کار کے لیے نہایت اہم ثابت ہو سکتا ہے جس سے ہمیں نظام شمسی سے باہر کے سیاروں پر زندگی کی تلاش میں مدد ملے گی کیونکہ اس بارے میں اس سے پہلے کم ہی سوچا گیا ہے۔
اس مطالعے کی سربراہی کرنے والی محقق ڈاکٹر سٹیفنی اولسن کا کہنا ہے: ’یہ ایک حیرت انگیز نتیجہ ہے۔ اس سے ہمیں یہ پتہ چلا ہے کہ نظام شمسی سے باہر کے سیاروں پر سمندروں کی لہروں کا پیٹرن اس قدر موزوں ہے کہ وہاں زندگی کو پھلنے پھولنے کے لیے ہماری زمین سے بھی زیادہ بہتر اور سازگار ماحول میسر ہے۔‘
حالیہ برسوں میں سائنس دانوں نے نظام شمسی سے باہر بڑی تعداد میں سیاروں اور ایسی دنیاؤں کو دریافت کیا ہے جو ہمارے نظام سے باہر کے ستاروں کے مدار میں گھومتی ہیں تاہم یہ ہم سے اتنی دور واقع ہیں کہ ان تک اب تک بنائے گئے کسی بھی تیز ترین خلائی جہاز کی مدد سے پہنچنا ناممکن ہے یہاں تک کہ ان کی تفصیلات معلوم کرنا بھی انتہائی دشوار ہے۔
تحقیق کار ان دنیاؤں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے کام کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ایسی دوربینیں بھی استعمال کی جا رہی ہیں جن کی مدد سے وہاں کے ماحول کا ’سونگھ کر‘ جائزہ لیا جا سکتا ہے اور یہ بھی پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ وہ سیارے کس مادے سے بنے ہیں۔ تاہم وہاں سے حاصل ہونے والی معلومات کو سمجھنے کے لیے سائنس دانوں کو تفصیلی اور پیچیدہ نمونے تیار کرنا ہوں گے جس سے یہ معلوم ہو سکے گا کہ یہ سیارے کیسے وجود میں آئے ہیں اور وہاں کا ماحول کیسے کام کرتا ہے۔
ان نمونوں اور مشاہدوں کے ملاپ سے سائنس دان ان دور دراز سیاروں پر خلائی مخلوق یا زندگی کی موجودگی کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ڈاکٹر اولسن اور ان کی ٹیم نے حاصل شدہ نمونوں اور مشاہدوں کو یکجا کیا ہے اور یہ کوشش ان سیاروں پر زندگی کے آثار کے بارے میں معلومات کے لیے معاون ثابت ہوگی۔
یہ تحقیق ’گولڈشمٹ جیو کیمسٹری کانگریس‘ بارسلونا میں پیش کی گئی ہے۔
ڈاکٹر اولسن کا اس تحقیق کے بارے میں کہنا تھا: ’کائنات میں زندگی کی تلاش کے لیے ناسا کی توجہ ہمیشہ سے نام نہاد ’قابل رہائش زون‘ کے سیاروں پر مرکوز رہی ہے یہ ایسی دنیائیں ہیں جہاں مائع پانی کے سمندر موجود ہو سکتے ہیں۔ لیکن سبھی سمندر یکساں طور پر زندگی کی میزبانی کے قابل نہیں ہوتے جیسا کہ کچھ سمندر اپنے پانی کی گردش کے طریقہ کار کی وجہ سے دوسروں کے مقابلے میں رہنے کے لیے بہتر مقامات ہوتے ہیں۔‘
اس مطالعے کے لیے تحقیقاتی ٹیم نے ناسا کے سافٹ وئیر کا استعمال کرتے ہوئے ان سیاروں کے ماڈل بنائے جن کی مدد سے نظام شمسی سے باہر کے سیاروں کے حالات کو مصنوعی طور ہر تیار کیا گیا اور ان کا جائزہ لیا گیا۔ ناسا کی اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے یہ ٹیم ممکنہ آب و ہوا اور سمندروں کے ایسے ماڈل تیار کرنے میں کامیاب ہوگئی جو ان سیاروں پر موجود ہوسکتے ہیں۔
اس تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے پایا کہ ان میں سے بہت سے سیارے زمین کی نسبت زندگی کے لیے زیادہ سازگار اور پھلنے پھولنے والے ماحول کے حامل ہیں۔
انہوں نے زمین کے سمندروں میں اس عمل کا جائزہ لیا جس سے یہاں زندگی کو پنپنے کا موقع ملا تھا اور غور کیا گیا کہ کیا کائنات میں کہیں اور بھی ایسا ہی عمل ممکن ہوسکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر اولسن نے کہا: ’ہمارے کام کا مقصد نظام شمسی سے باہر کے سیاروں کے ایسے سمندروں کی نشاندہی کرنا ہے جو وافر اور فعال زندگی کی میزبانی کرنے کی سب سے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’زمین کے سمندروں میں زندگی کا انحصار اپ ویلنگ (اپ ویلنگ ایک بحری ارضیاتی رجحان ہے جس میں سمندری سطح کی طرف کثیف، ٹھنڈے اور عام طور پر غذائی اجزا سے بھرپور پانی شامل ہوتا ہے جو گرم، عام طور پر غذائیت سے محروم سطح کے پانی کی جگہ لے لیتا ہے) پر ہوتا ہے جو سمندر کی تاریک گہرائیوں سے غذائی اجزا کو سمندر کے سورج کی روشنی حاصل والے حصوں کو واپس لوٹاتا ہے جہاں ضیائی تالیف پر انحصار کرنے والے جاندار زندگی بسر کرتے ہے۔ زیادہ اپ ویلنگ کا مطلب ہے زیادہ غذائیت کی فراوانی، جس کا مطلب ہے زیادہ حیاتیاتی سرگرمی۔‘
ڈاکڑ اولسن کے مطابق: ’یہ ہی وہ عمل ہے جس کی ہمیں ان سیاروں پر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔‘
مختلف سیاروں کے نمونے تیار کرنے کے بعد محققن اس بارے میں جاننے میں کامیاب ہوگئے کہ کن اقسام کے سیاروں میں زندگی پیدا ہو سکتی ہے یا جہاں اس کے برقرار رہنے کے زیادہ امکان ہیں۔
اور انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ زمین اس حوالے سے سب سے بہترین جگہ نہیں ہے۔ اور یہ کہ دوسری دنیائیں بھی ہوسکتی ہیں جو زندگی کے آغاز کے لیے ہمارے کرہ ارض سے کہیں بہتر جگہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’ہم نے ایک سمندری گردش کا نمونہ استعمال کیا ہے تاکہ اس بات کی نشاندہی کی جا سکے کہ کس سیارے کے سمندر میں اپ ویلنگ کا عمل سب سے بہتر ہے اور اس طرح وہ زندگی کے لیے سب سے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔‘
ڈاکٹر اولسن نے مزید کہا: ’ہم نے پایا ہے کہ زیادہ ماحولیاتی کثافت، گردش کی سست رفتار اور براعظموں کی موجودگی سے اپ ویلنگ کی شرح سب سے بہتر ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’اس سے مزید واضح ہوتا ہے کہ شاید زمین زندگی کے لیے غیر معمولی حالات میں زیادہ موافق نہیں ہے اور یہ کہ زندگی کسی بھی ایسے سیارے پر بہتر انداز سے پھل پھول سکتی ہے جو اس کے لیے ہمارے کرہ ارض سے زیادہ سازگار ماحول رکھتے ہوں۔‘
اس تحقیق کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ ہم ٹیکنالوجی کی مدد سے ہر چیز کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ کائنات میں یقیناً بہت زیادہ زندگی موجود ہے جوشاید ہم کبھی نہیں دیکھ پائیں گے یہاں تک کہ جدید ترین دوربینوں اور دیگر آلات کے ساتھ بھی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس دانوں کو ان سیاروں کے حوالے سے اپنی تلاش کو بہتر بنانے کی ضرورت ہوگی جہاں بھرپور زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے منسلک کرس رین ہارڈ کا کہنا ہے: ’ہم توقع کرتے ہیں کہ دور دراز اور قابلِ رہائش دنیاؤں میں زندگی کی نشاندہی کرنے والی علامات میں سمندروں کی اہمیت سب سے زیادہ ہوگی تاہم موجودہ دور میں ہم نظام شمسی سے آگے کے سیاروں کے سمندروں کے بارے میں بہت محدود معلومات رکھتے ہیں۔‘
کرس رائن ہارڈ، جو اس مطالعے کا حصہ نہیں تھے، کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹر اولسن کا کام نظام شمسی سے باہر کے سیاروں کے حوالے سے بحری سائنس میں ایک اہم اور دلچسپ قدم ثابت ہو گا۔
نئی تحقیق سے اب یہ بتانے میں مدد مل سکتی ہے کہ نئی دوربینیں کس طرح بنائی جائیں، کیونکہ اب ہم یہ جانتے ہیں کہ کس قسم کے سیارے ڈھونڈنا بہتر ہوگا۔
ڈاکٹر اولسن نے کہا: ’اب ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمیں کیا تلاش کرنا ہے لہذا ہمیں تلاش شروع کرنے کی ضرورت ہے۔‘
© The Independent