بلوچستان حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک دیرپا منصوبہ شروع کر رہی ہے جسے ’چیف منسٹر یوتھ سکلز ڈویلپمنٹ اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروگرام‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس منصوبے کے تحت حکومت بلوچستان آنے والے پانچ سالوں کے دوران 30 ہزار نوجوانوں کو بیرونِ ملک ملازمت کے مواقع فراہم کرے گی۔
پروگرام کے ابتدائی مرحلے میں تقریباً چھ ہزار نوجوان سعودی عرب روانہ کیے جا چکے ہیں جن کے تمام اخراجات حکومت بلوچستان نے برداشت کیے۔
اس پروگرام کے تحت بلوچستان کے نوجوانوں کو تعمیرات، صحت (نرسنگ)، انفارمیشن ٹیکنالوجی، الیکٹریشن اور دیگر شعبوں میں عملی کام کرنے کے سلسلے میں جرمنی اور رومانیہ جیسے یورپی اور سعودی عرب جیسے خلیجی ممالک بھیجا جا رہا ہے۔
بلوچستان جیسے پسماندہ اور وسائل سے مالا مال مگر مواقع سے محروم صوبے میں بے روزگاری ہمیشہ سے ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔
2023 کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان میں نوجوانوں کی مجموعی آبادی 28 لاکھ ہے، جبکہ 15 سے 24 سال کی عمر کے افراد کی لیبر فورس 22 لاکھ سے بھی زائد بتائی جا رہی ہے۔
مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں بے روزگاری کی شرح 37 فیصد سے زائد ہے اور کم از کم چھ لاکھ نوجوان اس وقت کسی بھی قسم کے روزگار سے محروم ہیں۔
حکومت بلوچستان کے اس پروگرام کے تحت جانے والے نوجوان دو سال تک متعلقہ جگہوں پر کام کرنے کے پابند ہوں گے، تاہم دو سال کے بعد وہ کنٹریکٹ سے آزاد ہو کر کہیں بھی کام کر سکیں گے۔
بلوچستان ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (بی ٹیوٹا) کے میڈیا کوآرڈینیٹر بیجار خان مری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آنے والے وقتوں میں اس پروگرام میں دوسرے خلیجی ممالک کے علاوہ جاپان، کوریا، ترکی اور دیگر یورپی ممالک کو بھی شامل کیا جائے گا۔
’پروگرام میں منتخب نوجوانوں کو تعمیرات کے شعبوں میں کام کے لیے سعودی عرب اور رومانیہ بھیجا جائے گا جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور صحت کے شعبوں میں مہارت رکھنے والے نوجوان جرمنی کی مختلف کمپنیوں میں خدمات سرانجام دیں گے۔ ہم فی الحال پہلے مرحلے میں ہیں اور آنے والے وقتوں میں ہمارا ہدف ہے کہ ہم دیگر شعبوں میں مزید ممالک جیسے دبئی، جاپان، کوریا، ترکی اور دوسرے ممالک میں نوجوان کو بھیجیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیجار خان مری کے مطابق اس پروگرام میں نوجوانوں کے انتخاب میں مکمل شفافیت رکھی گئی ہے۔ پروگرام کے لیے 18 سے 40 سال تک کے ہنر مند اور نیم ہنر مند افراد کو چنا جاتا ہے اور بلوچستان کے تمام اضلاع کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی دی گئی ہے۔
بیجار خان مری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلوچستان میں عملی طور پر ایسے ہنر مند نوجوانوں کا فقدان ہے جو بین الاقوامی سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں میں ملازمت اختیار کر سکیں۔ تاہم وہ پُرامید ہیں کہ حکومت کا یہ اقدام ان نوجوانوں کے ہنر کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
’گوادر پورٹ، سی پیک اور ریکوڈک جیسے منصوبوں میں عملے کے طور پر کام کرنے کے لیے ہمارے نوجوانوں کی تربیت نہیں ہوئی ہے، تو یہ جو موقع ہے بیرونِ ملک روزگار کا، یہ اس لیے اچھا اور بہترین ہے کہ اس سے جانے والے نوجوان ساتھ میں زرمبادلہ بھی کمائیں گے اور تربیت بھی حاصل کریں گے، اور جب یہ دو تین سال بعد واپس اپنے ملک آئیں گے تو تربیت یافتہ بھی ہوں گے اور وہ بلوچستان میں ہی بڑے بڑے انٹرنیشنل کمپنیز کے ساتھ کام کر سکیں گے۔‘
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سلیم اللہ خان، جنہوں نے حال ہی میں اپنی 16 سالہ تعلیم مکمل کی ہے، بھی اس پروگرام کے تحت جرمنی میں آئی ٹی کے شعبے میں کام کرنے کے لیے پُرامید ہیں۔ سلیم اللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ پروگرام ان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔
’شدید بے روزگاری اور غیر مستقل حالات میں جہاں نوجوان لاکھوں روپے خرچ کر کے غیر قانونی راستوں سے یورپ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، وہاں اس طرح کا موقع فراہم کرنا یقیناً ہمارے لیے ناقابلِ یقین ہے۔ ایک تو ہم قانونی طریقے سے جا رہے ہیں، دوسرا ہمارا کوئی خرچہ نہیں ہو رہا، اور سب سے اہم بات، ہم اپنے شعبے میں باعزت طریقے سے کام کریں گے۔ یہ بہت اچھا ثابت ہوگا نہ صرف ہم جیسے نوجوانوں کے لیے بلکہ ہماری پوری فیملی کے لیے۔‘
ناصر احمد، جو پیشے کے اعتبار سے الیکٹریشن ہیں، بھی اس پروگرام کے تحت رومانیہ جانے کے لیے پُرامید ہیں۔ ناصر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اس پروگرام کے تحت جا کر نہ صرف کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ وہاں مستقل طور پر رہنا چاہتے ہیں۔
’ارادہ تو یہی ہے کہ وہاں جا کر کم از کم سات سے آٹھ سال کام کروں اور نہ صرف میں بلکہ سیٹل ہونے کے بعد فیملی کے دوسرے نوجوانوں کو بھی وہیں بلاؤں۔‘
جہاں ایک طرف اس منصوبے کو سراہا جا رہا ہے اور بلوچستان کے بے روزگار نوجوانوں میں ایک نئی امید کی کرن پیدا ہوئی ہے، وہیں بعض حلقے اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ایک وقتی حل ہے جو وقتی ریلیف تو فراہم کر سکتا ہے، لیکن بلوچستان کے اندر ہی روزگار کے مواقع پیدا کیے بغیر بے روزگاری کا مسئلہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوگا۔
تاہم، اس پروگرام کے ذریعے نہ صرف نوجوان بین الاقوامی تجربہ حاصل کریں گے بلکہ بیرونِ ملک سے آنے والی ترسیلات زر سے پاکستان کی معیشت کو بھی کافی زیادہ تقویت ملے گی۔
بیجار خان مری کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ اس پروگرام کی مدد سے نہ صرف نوجوانوں کی زندگی بدل سکتی ہے بلکہ یہ منصوبہ صوبے کی مجموعی ترقی کا ذریعہ بھی بنے گا۔