سائنس دان ایک ’زبردست‘ پیش رفت میں مہلک ای کولی بیکٹیریا سے بجلی پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
یہ فضلے کو ٹھکانے لگانے اور توانائی کی پیداوار دونوں شعبوں میں انقلاب برپا کر سکتی ہے۔
ایکول پولی ٹیکنیک فیڈرل ڈی لوزان (ای پی ایف ایل) کے بائیو الیکٹرانک ماہرین نے مختلف حالتوں میں بیکٹیریا سے بجلی پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
ٹیم نے بیکٹیریا کو انتہائی مؤثر برقی جراثیم بنانے کے لیے ایک عمل سے کام لیا جسے ایکسٹرا سیلولر الیکٹرون ٹرانسفر (ای ای ٹی) کہا جاتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں روایتی طریقوں کے مقابلے میں بجلی کی پیداوار میں تین گنا اضافہ ہوا۔
جریدے ’جول‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق محققین ای کولی کے اندر مکمل ای ای ٹی راستہ بنانے میں کامیاب رہے۔ اس سے پہلے یہ کامیابی کبھی حاصل نہیں کی گئی۔
ای پی ایف ایل کے پروفیسر آرڈیمس بوگھوسیان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ای کولی بیکٹیریا کو بجلی پیدا کرنے قابل بنایا۔ یہ بیکٹیریا ایسا خورد بینی وجود ہے جس پر سب سے زیادہ تحقیق کی جا چکی ہے۔‘
اگرچہ ای کولی مخصوص خصوصیات کے مالک بیکٹیریا ہیں جو قدرتی طور پر بجلی پیدا کرتے ہیں لیکن وہ صرف خاص کیمیکلز کی موجودگی میں ہی ایسا کرسکتے ہیں۔
’ای کولائی کئی اشیا پر نشوونما پا سکتا ہے جس سے ہم گندے پانی سمیت کئی طرح کے ماحول میں بجلی پیدا کرنے کے قابل ہوئے ۔‘
گذشتہ طریقوں کے برعکس، تبدیلی کے عمل سے گزارا گیا ای کولی مختلف قسم کے نامیاتی مادے کھا کر بجلی پیدا کرسکتا ہے۔
محققین نے شیوانیلا اونیڈینسس ایم آر-ون نامی بیکٹیریا کے حصوں کو جوڑا جو بجلی بنانے کے لیے مشہور ہے۔ سائنس دان وہ راستہ بنانے میں کامیاب ہو گئے جو خلیے کی اندرونی اور بیرونی جھلیوں تک پھیلا ہوا ہے۔
تبدیل شدہ ای کولی کی شراب خانے کے گندے پانی میں بھی جانچ کی گئی جہاں وہ اسی طرح کے برقی جرثوموں کے برعکس پھلتا پھولتا رہا۔
سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ اس سے اس کی بڑے پیمانے پر فاضل مواد کو استعمال میں لانے اور توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت ظاہر ہوتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پروفیسر بوگھوسیان کا کہنا تھا کہ ’نامیاتی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے سسٹم کو توانائی فراہم کرنے کی بجائے ہم ایک ہی وقت میں نامیاتی فضلے کو پروسیس کرتے ہوئے بجلی پیدا کر رہے ہیں اور اس طرح ایک تیر سے دو شکار کر رہے ہیں۔
’ہم نے اپنی ٹیکنالوجی براہ راست گندے پانی پر بھی آزمائی جو ہم نے لوزان میں شراب کی مقامی فیکٹری لے براسیرز سے لیا۔
’عام برقی جراثیم زندہ رہنے کے قابل بھی نہیں تھے جب کہ ہمارے تیارکی گئے برقی بیکٹیریا اس فضلے کو کھا کر تیزی سے پھلنے پھولنے کے قابل تھے۔‘
اس تحقیق کا دائرہ فضلے سے نمٹنے آگے تک پھیلا ہوا ہے۔ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ تبدیل شدہ ای کولی بیکٹیریا کو ایندھن کے خوردبینی خلیات، کیمکلز سے بجلی گزار کر مختلف مصنوعات کی تیاری اور ماحول میں مختلف مادوں کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
بیکٹیریا کی جینیاتی لچک کا مطلب ہے کہ اسے مخصوص مقامات اور مواد کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے جس سے یہ پائیدار ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے ایک متنوع آلہ بن جاتا ہے۔
تحقیق کے مرکزی مصنف اور ڈاکٹریٹ اسسٹنٹ محمد محب نے مزید کہا: ’ہمارا کام کافی بروقت ہے کیوں کہ انجینئرڈ بائیو الیکٹرک جراثیم حقیقی دنیا میں زیادہ سے زیادہ استعمال کا دائرہ وسیع کر رہے ہیں۔‘
’ہم نے پہلے سے موجود اس جدید ترین طریقے جو صرف جزوی راستے پر انحصار کرتا ہے اور اس جرثومے جس کا ذکر حال ہی میں اس میدان میں شائع ہونے والے سب سے بڑے مقالوں میں سے ایک میں کیا گیا، کے مقابلے میں ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔
’چوں کہ بہت سے سائنس دان اس موضوع پر تحقیق کر رہے ہیں اس لیے ہم بجلی پیدا کرنے والے بیکٹیریا کے مستقبل کے بارے میں پرجوش ہیں۔ ہم اس ٹیکنالوجی کو بڑی سطح پر لے جانے کے منتظر ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ دوسرے بھی ایسا ہی کریں گے‘