ہم ہر حد تک جائیں گے۔۔۔!
کوئی کسی بھول میں نہ رہے۔ کشمیر آزاد کروانے ہم ہر حد تک جائیں گے!
چاہےاس کے لیے ہمیں روزانہ ٹویٹس ہی کیوں نہ کرنی پڑیں۔ کشمیر آزاد کروانے ہم ٹویٹر کی آخری حد تک جائیں گے۔
یہ الگ بات ہے کہ ٹوئٹر پر حروف کی آخری حد محض 280 ہے۔۔۔
لیکن پھر بھی کوئی کسی بھول میں نہ رہے۔ کشمیر آزاد کروانے ہم ہر روز نت نئے سوشل میڈیا ٹرینڈز بنوانے میں بھی آخری حد تک جائیں گے۔ اور یہ ٹرینڈز اس وقت تک بنتے رہیں گے جب تک نریندر مودی تنگ آ کر اپنے سمارٹ فون پر نوٹیفیکیشن کا آپشن آف نہیں کر لیتے اور جیسے ہی یہ آپشن بند ہوا بس سمجھ لیجیے کشمیر اب آزاد ہوا کہ تب۔۔۔کچھ ہی سمے لگیں گے کہ صدارتی نوٹیفیکیشن بھی چٹکیوں میں ختم ہو جائے گا۔ ہم اجلاس منعقد کرنے، کمیٹیاں بنانے، سیل قائم کرنے، ترجمان مقرر کرنے کی بھی ہر آخری حد تک جائیں گے کیوں کہ آزاد خود مختار سول حکمرانوں کی ہمارے ہاں یہی تو آخری حدود ہوتی ہیں۔
ہر روز اجلاس بلائیں گے، ہر روز عالی دماغ وزیر مشیر با تدبیر نت نئے پلان بتائیں گے اور ہم 70 سال سے احمق بنتی اس معصوم قوم کو بتائیں گے کہ کیسے ہر جمعے کو آدھے گھنٹے کے لیے گھروں دفتروں سے باہر نکلنا ہے اور اس آخری حد تک جانا ہے جب تک آپ کے پاؤں شل نہ ہو جائیں یا جب تک آدھا گھنٹہ مکمل نہ ہو جائے۔ جوں ہی 30 منٹ کے آخری سیکنڈ کی آخری حد ٹِک ٹِک کرے آپ ایک ٹُک حکومت کی طرف دیکھنا شروع کر دیجیے اور ہمارے اگلے اعلان کے منتظر رہیے۔۔۔
جس عالی دماغ نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد مسئلہ کشمیر کا حل آدھے گھنٹے کی ہفتہ وار واک نکالا ہے، یقین جانیے داد دینے کو دل چاہتا ہے۔ ویسے بھی قوم انتہائی کاہل ہو چکی ہے، گھنٹوں تک دفتروں اور گھروں میں بیٹھے رہنا معمول بنا چکی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف قومی موٹاپے میں قومی کند عقلی کے یکساں تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے بلکہ کشمیر کاز کو بھی اندیشے لاحق ہو رہے ہیں۔ ایک طرف ایسا چست وتندرست وزیر اعظم اور دوسری جانب نرم و گداز ڈھیلے ڈھالے شکم والی قوم۔۔۔!اللہ اللہ۔۔۔
خدا نہ کرے کل کلاں کو جنگ لڑنی پڑے تو قوم کو چستی کی عادت تو ہو۔ سو یہ ہے سنہری کلیہ کشمیر کی آزادی کا۔ واک کی واک، کاز کا کاز۔۔۔ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے!
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ویسے یہ ہفتہ وار واک کی بھی ایک آخری حد مقرر کی گئی ہے جو کہ 27 ستمبر تک ہے۔ جب تک کہ وزیر اعظم صاحب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی خطاب نہیں کر لیتے۔ کل پانچ دنوں کی اڑھائی گھنٹوں یعنی 150 منٹ کی واک نریندر مودی کو شرم دلانے اور عالمی دنیا کا ضمیر جگانے کے لیے تیر بہدف نسخہ ثابت ہوگی۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں جہاں سربراہانِ عالم وزیر اعظم عمران خان کی تقریر سنتے اپنے سامنے اس تقریر کا سکرپٹ بھی رکھے ہوں گے وہیں گوگل سے ڈاون لوڈ پاکستانیوں کی ہفتہ وار واک کی تصاویر بھی ان کے سامنے دھری ہوں گی جنہیں دیکھتے دیکھتے مودی سمیت عالمی برادری شرم سے پانی پانی ہو جائے گی اور اسی اجلاس میں کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کےعین غین مطابق استصواب ِرائے کی آزادی کا اعلان کر دیا جائے گا ۔واللہ۔۔۔ حکمت عملی کی کیا موثر آخری حد ہے!
اور چلیے اگر ایسے بھی کام نہ بنا تو 27 ستمبر کے بعد سوچیں گے کہ اب اگلا لائحہ عمل کیا ہے اور اس کی آخری حد کیا مقرر ہو۔۔۔پانچ اگست سے لے کر آج تک یہ حقیقت ہے کہ ریاستِ پاکستان کشمیر کے معاملے پر محض ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ ستر سال سے کشمیر کے نام پر جو لالی پاپ چوسنے پر قوم کو لگا رکھا تھا وہ مودی نے ایسا بےدردی سے چھینا کہ رونا بلکنا تو دور کی بات فی الحال تو پاکستان محض منہ ہی بسور رہا ہے۔ بھارت کشمیر ہڑپ کر چکا، کشمیری تڑپ رہے ہیں اور ہم محض روزانہ کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی کا جائزہ ہی لیے جا رہے ہیں۔ نہ سفارتی حمایت کا کوئی سر پیر ہے نہ اخلاقی حمایت کی کوئی کل سیدھی۔
حد تو یہ ہے ہماری بزدلی کی کہ ہم کھل کر بھارت کو جنگ کی دھمکی بھی نہیں دے سکتے۔ بھارت علی الاعلان جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی تڑی لگاتا ہے اور ہم طفلِ مکتب کی طرح چپ سادھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ فاشسٹ ہٹلر نظریے کا مودی ہمارے نظریہ کشمیر پر کاری ضرب لگاتا ہے ہماری زمین ہڑپ کر جاتا ہے اور ریاست میں اتنی جرات تک نہیں کہ مودی اور اس کے جہازوں کی آمد و رفت کے لیے فضائی حدود ہی بند کر سکے۔ اگر ٹرینیں اور بسیں بند ہو سکتی ہیں تو جہازوں میں کون سا سرخاب کے پر لگے ہیں کہ منقطع نہیں ہو سکتے۔۔۔ کون ہے جو کشمیر کے معاملے پر آج بھی آدھی تیتر آدھی بٹیر والی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔
بھارت سے تجارت بند، بھارت کی افغانستان تک براستہ پاکستان تجارت بند لیکن افغانستان سے بھارت کی تجارت کے روٹ تاحال کھلے ہیں۔ کیوں؟ آخر یہ کون ہے جو ابھی بھی مودی کو آسائش فراہم کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔۔۔ریاست کا کام افراد سے احتجاج کروانا نہیں ہوتا۔
سری نگر کی نگین جھیل میں بچے کشتی رانی کرتے ہوئے۔ (اے ایف پی)ریاست کا کام کسی بھی بحران سے نمٹنے کے لیے اداروں کو موثر پالیسی فراہم کرنا اور اس پالیسی کے عملی نفاذ کو اس طرح یقینی بنانا کہ ریاستی مفادات محفوظ رہیں۔ تاحال کشمیر کے معاملے پر ریاستِ پاکستان کا ردعمل اور پالیسی رجعت پسندانہ ہے۔ لکیر کے فقیر کی طرح ہم اگلے کسی واقعے کے منتظر ہیں۔ تاحال ریاست کو اس بات کا ادراک نہیں ہو سکا کہ 70 سالہ کشمیر پالیسی کی سمت اب بدل چکی ہے۔ بلاشبہ پاکستان تسلیم نہیں کرتا لیکن زمینی حقیقیت یہ ہے کہ بھارت نے کشمیر کی حیثیت تبدیل کر دی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیر پر پاکستان بھی اپنی 70 سالہ پرانی پالیسی کو نئے خطوط پر استوار کرے اور اس کے مطابق عالمی دنیا میں کشمیر کا مقدمہ لڑے۔
پانچ اگست کے واقعے سے پاکستان جس سکتے کی کیفیت میں تھا تاحال وہ کیفیت طاری ہے۔ میڈیا کے دباؤ پر حکومت نے چند ہاتھ پاؤں مارے ہیں مگر وہ اندھیرے میں تیر چلانے سے زیادہ کے نہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر کی شنوائی ہونے میں پاکستان سے بڑھ کر چین کا کردار اہم تھا۔ سلامتی کونسل کے بند کمرہ اجلاس کے بعد اب تک ریاست کنفیوژ ہے کہ اب اسے آگے کیا کرنا ہے۔ شکر ہو حالات و واقعات کا کہ عزتِ سادات بچانے واسطے اگلا ایونٹ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کا 27 ستمبر بھی گزر جائے گا، تقریر بھی ہو جائے گی۔ چلیے اس کے بعد۔۔۔؟
اس کے بعد پاکستان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ نہ قوم کو، نہ حکومت کو، نہ ریاست کو کیونکہ بدلی ہوئی دنیا، بدلے ہوئے حالات، بدلی ہوئی کشمیر کی حیثیت کا مقدمہ ہم 70 سالہ پرانی پالیسی سے لڑ رہے ہیں۔ فاشسٹ ذہنیت کا مقابلہ امن اور پیار کی بھاشا سے نہیں کیا جاسکتا۔ قتل عام پر تلی مودی ذہنیت کا مقابلہ گاندھی کے فلسفے سے نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا گال بھی آگے کردو۔
آج کا دور صرف دو قوتوں کا دور ہے، معاشی اور دفاعی۔ یہ تو ہمیں تسلیم ہے کہ پاکستان کو ایک ٹھوس معاشی قوت بننے میں کم از کم مزید 10 سال کا عرصہ درکار ہے۔ تو پھر دفاعی قوت۔۔۔؟ یہ بھی ہمیں تسلیم ہے کہ اس وقت ہم دنیا کی بہترین دفاعی قوتوں میں سے ایک ہیں تو کیا اس کا مظاہرہ بھی محض بیانات اور ٹویٹس کی آخری حد تک محدود رکھیں گے۔۔۔؟ یاد رکھیے کہ آپ عالمی دباؤ سفارت کاری کے ذریعے سے تو ڈال سکتے ہیں لیکن محض سفارت کاری سے اب آپ کشمیر حاصل نہیں کرسکتے جب تک آپ ایک بھر پور معاشی قوت نہ بن جائیں۔
ایسی صورت میں آپ کے پاس صرف دوسرا راستہ ہی بچ جاتا ہے جسے آپ جنگ کا نام دیں یا جہاد کا۔۔۔۔ کشمیر کے لیے سنجیدہ اور واحد آخری حد اب یہ ہی ہے۔