سپریم کورٹ نے جمعرات کو فیض آباد دھرنا کیس میں نظرِثانی کی اپیل پر سماعت شروع کی تو وفاق سمیت کئی درخواست گزاروں نے اپنی درخواستیں واپس لینے کا کہا۔
ابتدائی سماعت کے بعد عدالت عظمٰی کے تین رکنی بینچ نے سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر دی لیکن دوران سماعت ریمارکس میں کہا کہ ’ہم سے کھیل نہ کھیلیں۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر جب وفاقی حکومت نے نظرثانی درخواست واپس لینے کا کہا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ درخواست واپس لینے کی کیا کوئی وجہ ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’کوئی خاص وجہ نہیں ہے صرف نظرثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’نظرثانی واپس لینے کے لیے تحریری درخواستیں دائر کی جائیں۔ زیر التوا مقدمات پر میڈیا پروگرامز ہو رہے ہیں، چار سال یہ کیس نہیں لگا تو کوئی نہیں بولا اور جب سماعت کے لیے مقرر ہوا اس پر پروگرام شروع ہو گئے۔ کیا زیر التوا مقدمات پر پروگرامز نشر کیے جا سکتے ہیں؟ میڈیا ہمارے کنٹرول میں نہیں ہم صرف درخواست کر سکتے ہیں۔‘
سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف اور پیمرا کے وکلا نے بھی نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سب وکلا کو سن کر فیصلہ کریں گے۔ اس کے بعد شیخ رشید اور الیکشن کمیشن نے بھی نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کر دی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ’سب لوگ درخواستیں واپس لے رہے ہیں، نظرثانی درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں نقائص ہیں۔ اب بتائیں کہ فیصلے میں نقائص تھے یا نہیں ایسے تو درخواستیں واپس نہ لیں، دھرنے کی وجہ سے پورے ملک کو اذیت میں رکھا گیا۔ اب صرف موکل سے ہدایات لے کر درخواستیں واپس لینے کا تو نہ کہا جائے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا الیکشن کمیشن اور پیمرا نے فری ول سے درخواستیں دائر کی تھیں؟ پاکستان میں وہی چلتا ہے کہ حکم اوپر سے آیا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ عدالت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں گے توایسا نہیں ہو گا، اگر درخواست دی تو اب سامنا بھی کریں۔‘
’سزا جزا بعد کی بات پہلے اعتراف جرم تو کر لیں۔ ہم سے یہ کھیل نہ کھیلیں، آپ میں بتانے کی ہمت ہے یا نہیں؟ کیا آپ بتائیں گے کہ کس کے حکم پر درخواستیں دائر کیں؟ آپ کو کس سے ڈر ہے؟ اوپر والے سے تو ڈرتے نہیں۔ تقریریں تو بہت کرتے ہیں ہمت کر کے عدالت کو بھی بتائیں۔‘
’اگر اس وقت اس فیصلے پر عمل ہوتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے‘
چیف جسٹس نے طاہر القادری کا حوالہ دیتے ہوئے استفسار کیا کہ ’وہ صاحب کہاں ہیں جو کینیڈا سے جمہوریت کے لیے آئے تھے؟‘
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ’اس دھرنے کے بعد کئی اور ایسے ہی واقعات سامنے آئے، اگر اس وقت اس فیصلہ پر عمل ہوتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے۔‘
اٹارنی جنرل نے جواب دیا ’ہم فیصلے میں دی گئی 17 ہدایات پر عمل سے صحیح سمت میں چلیں گے۔‘
چیف جسٹس نے کہا ’آپ لوگوں نے فیصلے کو آج سچ مان لیا اب آپ کا امتحان ہے کہ آپ ساتھ دیتے ہیں یا نہیں۔‘
بعد ازاں فیض آباد دھرنا کیس نظر ثانی اپیل پر سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس نے عدالتی کارروائی کے دوران ریمارکس میں اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ سمیت سب پر جرمانہ کیوں نہ کیا جائے؟ عدالتی وقت ضائع کیا گیا ملک کو بھی پریشان کیے رکھا۔
انہوں نے کہا سب آ کر کہہ رہے ہیں کہ درخواستیں واپس لینی ہیں، ہم تو بیٹھے ہوئے تھے کہ شاید ہم سے فیصلے میں کوئی غلطی ہو گئی ہو۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ’آپ جیسے سینیئر آدمی سے یہ توقع نہیں تھی۔‘ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’کیا سارے اداروں نے یہ طے کر لیا ہے کہ جو فیصلے میں لکھا گیا وہ ٹھیک ہے؟۔‘
دھرنے کو ختم کرنے سے متعلق حکومت وقت کے ساتھ کیے گئے معاہدے میں اس وقت کے ملک کے انٹیلی جنس ادارے کے اعلیٰ افسر میجر جنرل فیض حمید کے دستخط بھی تھے۔
اس دھرنے کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ میں کیس چلنے کے بعد فروری 2019 میں ایک تفصیلی فیصلہ جاری ہوا، جسے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہی لکھا تھا۔
فیصلے کے مطابق دھرنے کے شرکا کو بظاہر طاقت ور اداروں اور خفیہ ایجنسی کی مکمل حمایت حاصل رہی اور کہا گیا کہ آئین پاکستان مسلح افواج کے ارکان کی کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں شامل ہونے کی ممانعت کرتا ہے اور متعلقہ فوجی افسران کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دیا۔
جسٹس عیسیٰ نے 17 ستمبر کو بطور چیف جسٹس آف پاکستان عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔
قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے بعد فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس 28 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔
یہ سماعت اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کیس کے بارے میں ماضی کے ایک فیصلے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو برطرفی کے ریفرنس کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔سال 2017 میں تحریکِ لبیک پاکستان نے فیض آباد چوک پر دھرنا دیا جو 22 روز تک جاری رہا۔
چونکہ فیض آباد دونوں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع ایک اہم چوک ہے، اس لیے اس دھرنے سے وفاقی دارالحکومت میں رہنے والوں کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی۔
اس فیصلے کے خلاف متعدد نظر ثانی کی درخواستیں بھی دائر کی گئیں جن میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، وزارت دفاع اور الیکشن کمیشن، انٹیلی جنس بیورو، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور سیاسی رہنماؤں شیخ رشید اور اعجازالحق کی درخواستیں شامل تھیں۔
اس سے قبل جسٹس قاضی فائز عیسی بطور سپریم کورٹ جج کئی اہم فیصلے دے چکے ہیں جن میں فوجی عدالتوں کے خلاف فیصلہ، حدیبیہ پیپرز مل، فیض آباد دھرنا کیس، خواتین کے وراثتی حقوق، سرکاری املاک کے تحفظ سے متعلق اہم فیصلے شامل ہیں۔