پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں سے جاری ’جوڈیشل ایکٹوزم‘ کے سائے میں ملک کے انتیسویں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آنے والے دنوں میں عہدہ سنبھالیں گے، جس کے بعد کئی چیلنجز ان کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔
وکلا اور قانونی ماہرین کے مطابق ان چینلجز میں عدلیہ کی غیرجانبداری کو یقینی بنانا، سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف ریفرنسز کا معاملہ، زیر سماعت سیاسی درخواستوں کے فیصلے، سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری کا معاملہ اور بظاہر شروع ہوتی وکلا تحریک بھی شامل ہیں۔ اس حوالے سے نظریں نئے چیف جسٹس پر مرکوز ہیں۔
حالیہ سیاسی منظرنامے میں جس طرح عدالتی فیصلوں کے اثرات مرتب ہوئے ان پر سیاسی حلقوں میں بھی بحث ومباحثے ہوتے رہے ہیں۔
خاص طور پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تقرری تک کئی فیصلوں نے عوامی توجہ حاصل کیے رکھی۔ حکومت پاکستان نے اس سال جون میں سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن قبل از وقت جاری کر دیا تھا۔
عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان تناؤ کے تاثر میں جب سیاسی رہنماؤں نے ججز پر جانبداری کا الزام لگایا تو یہ معاملہ مزید سنگین ہوتا چلا گیا جس کے اثرات جمعے کو پارلیمنٹ کی جانب سے نیب ترامیمی ایکٹ کے خلاف فیصلے سے بھی ظاہر ہوئے۔
سیاسی حمایت یا مخالفت اپنی جگہ لیکن وکلا برادری نے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے آئین وقانون کی عمل داری و بالادستی، عدالتی اصلاحات، ججز کا احتساب، ججز کی تقرری کا شفاف طریقہ کار اور غیر سیاسی فیصلوں کی امید ظاہر کی ہے۔
ان کے مطابق اس صورت حال میں عہدہ سنبھالتے ہی جسٹس عیسیٰ کو تمام اداروں، بار ایسوسی ایشنز، سیاسی جماعتوں اور عوامی مفادات کے لیے متوقع کردار کیسے ادا کرنا ہے یہ ان کی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا۔
عدلیہ کی غیرجانبداری
پنجاب بار کونسل کے رکن رانا محمد آصف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیشہ سے عدالتی غیرجانبداری کا سوال اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ کے سامنے چیلنج بن کر کھڑا رہا ہے۔ آئین و قانون کے مطابق فیصلوں سے ہی غیرجانبداری کا عنصر سامنے آتا ہے لیکن جس طرح ملکی نظام میں لاقانونیت اور اختیارات میں تجاوز جیسے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں اس میں قانون پر عمل داری عدالتی غیر جانبداری کے باعث ہی ممکن ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے انصاف کے ایوانوں میں بھی دوہرے معیار اپنائے جاتے ہیں۔ ایک ہی طرح کے جرم میں مختلف فیصلوں سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی شخصیات کے خلاف مقدمات میں بھی پہلے سے اندازوں کے مطابق فیصلے ہی جانبداری کو جنم دیتے ہیں۔ لہذا اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے فیصلوں کے اثرات ماتحت عدلیہ پر بھی پڑتے ہیں اور وہاں بھی میرٹ پر فیصلے ایک جواب بنتا جا رہا ہے۔‘
رانا آصف کے بقول، ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور جج کارکردگی اور ان کی آٓئینی بالادستی پر یقین رکھنے کے باعث ان سے عدالتی غیرجانبداری کو توقع بھی زیادہ ہے۔ جس طرح وہ آئین کی کتاب ساتھ رکھتے ہیں اور لہرا کر کہتے ہیں اس کے مطابق عمل ہونا چاہیے تو اب انہیں عملی طور پر تمام چیلنجز سے نمٹنا ہے۔ ناصرف وکلا بلکہ عوام کی نظریں بھی ان پر لگی ہیں۔‘
ججز کے خلاف ریفرنسز کا معاملہ
عوام اور وکلا میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ججز کے احتساب کے لیے موجود فورم سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی ذاتی پسند نہ پسند کی بنیاد پر کارروائی کی جاتی ہے کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر تو کارروائی ہوئی لیکن اس کے بعد دیگر ججز کے خلاف دائر دائر ہونے والے ریفرنسز پر کوئی شنوائی نہیں ہوسکی۔
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ میاں داؤد کی جانب سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہے۔ جس کے مطابق اس ججز کی جانب سے 14 اپریل کو آئینی درخواستوں پر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف حکم امتناعی دیا گیا جو کہ ’خلاف قانون اور پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں مداخلت ہے۔‘
انہوں نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف بدعنوانی کا ریفرنس بھی دائر کر رکھا ہے۔
اسی طرح ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ہاشم راجہ نے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس امین الدین خان، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی، جسٹس علی ضیا باجوہ کے خلاف کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کا ریفرنس دائر کررکھا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان دونوں وکلا نے سپریم جوڈیشل کونسل سے استدعا کر رکھی ہے کہ جن ججز کے خلاف ریفرنس دائر کیے گئے ہیں ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے ذیلی آرٹیکل پانچ کے تحت کارروائی کی جائے، لیکن ان ریفرنسز پر اب تک کارروائی شروع نہیں ہوسکی۔
ریفرنس دائر کرنے والے وکیل میاں داؤد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کئی ماہ پہلے سے دائر ججز صاحبان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز پر ابھی تک کوئی کارروائی شروع نہیں کی گئی۔ بار بار رجوع کرنے کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہوسکی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ چیف جسٹس جبکہ پانچ ممبران ہوتے ہیں۔ میں نے سربراہ سمیت کونسل کے تمام ممبران کو متعدد خطوط بھی لکھے لیکن کارروائی شروع نہیں ہوسکی، لہذا نئے چیف جسٹس سے امید ہے کہ وہ ان ریفرنسز پر کارروائی ضرور شروع کریں گے۔‘
قانون دان ہاشم راجہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے اثاثوں سے متعلق جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس امین الدین خان کے خلاف کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا ریفرنس دائر کیا جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی اور جسٹس علی ضیا باجوہ کے خلاف بھی بدعنوانی اور اختیارات سے تجاوز کرنے پر ریفرنس دائر کیا ہے۔‘
ہاشم راجہ کے مطابق: ’ججز کے احتساب کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہونے کے باوجود کارروائی شروع نہیں ہوسکی، جس سے شبہات جنم لیتے ہیں کہ عام شہری کے خلاف تو کارروائی ہوسکتی ہے مگر طاقتوروں کا احتساب ممکن نہیں ہے، لہذا نامزد چیف جسٹس اگر اس تاثر کو ذائل کرنا چاہتے ہیں تو عہدہ سنبھالتے ہی ان ریفرنسز پر کارروائی کریں۔‘
سیاسی درخواستوں کے فیصلے
پاکستان میں اکثر سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی تنازعات لے کر عدالت عظمیٰ پہنچ جاتی ہیں۔ ان جماعتوں پر الزام ہے کہ سیاسی مسائل کو وہ پارلیمان کی بجائے عدالتوں میں گھسیٹتے ہیں، جو کسی طور اچھا رجحان نہیں۔
نائب صدر ہائی کورٹ بار لاہور رابعہ باجوہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نامزد چیف جسٹس کے لیے سب سے اہم کام سپریم کورٹ میں زیر سماعت اہم سیاسی درخواستوں پر فیصلے دینے کا ہے۔ ان میں نو مئی کے واقعات پر فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کا معاملہ، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل، آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح، سپریم کورٹ میں ججزکی سنیارٹی کے خلاف تعیناتی اور آئین کے مطابق 90 روز میں عام انتخابات کرانے، ججز کی آڈیو لیکس کمیشن سے متعلق درخواستیں شامل ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ ایسی درخواستیں ہیں جن پر نئے چیف جسٹس سے نہ صرف فوری فیصلے بلکہ آئین و قانون کے مطابق فیصلوں کی توقع کی جا رہی ہے۔ ان درخواستوں پر فیصلوں سے ہی اندازہ ہوسکے گا کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں اور کیا وہ واقعی آئینی بالادستی کے لیے عملی اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔‘
رابعہ باجوہ کے بقول: ’سپریم کورٹ میں زیر سماعت ان درخواستوں پر قانون کے مطابق فیصلے سیاسی بحران میں بھی کمی کا سبب بن سکتے ہیں اور عدالتی فیصلوں پر مہم جوئی کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔ کسی بھی سیاسی جماعت یا کارکنوں کو تنقید کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ عالمی سطح پر رینکنگ بھی بہتر ہوگی اور عدلیہ کے وقار میں اضافہ ہوگا۔‘
سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری
عدالت عظمیٰ میں ججز کی تعیناتیوں پر ہمیشہ سے بحث و مباحثے ہوتے رہے ہیں اور ہر بار نئے ججز کی تقرریوں سے وکلا ردعمل کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
ممبر پنجاب بار رانا آصف کے بقول: ’اعلیٰ عدلیہ خاص طور پر سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی پر ہمیشہ سے بارز کو تحفظات رہے ہیں۔ جب ہائی کورٹس کے جونیئر ججز کو سینیئرز پر ترجیح دی جاتی ہے، اس سے سینیئر ججز کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہر چیف جسٹس کے سامنے یہ مطالبہ رکھا گیا کہ وہ سینیئرججز کی سپریم کورٹ میں تقرریوں کو یقینی بنائیں لیکن اس پر کبھی عمل نہیں کیا گیا۔ جس سے بار ایسوسی ایشنز کو تحفظات رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے جب ہائی کورٹس سے سینیئرز کی بجائے جونیئر ججز کو سپریم کورٹ تعینات کیا گیا تو وکلا رہنماؤں نے منظر عام پر آکر ردعمل کا اظہار کیا اور میڈیا کے ذریعے بھی شکایات اٹھائی گئیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی ان کی تقرری پر اختلاف کیا تھا اور نوبت ووٹنگ تک بھی آئی۔ اب دیکھنا ہے کہ کیا نئے چیف جسٹس سپریم کورٹ میں تعینات جونیئر ججز اور مزید تقرریوں میں کس طرح میرٹ کو یقینی بنائیں گے۔‘
وکلا تحریک
نومئی کے بعد فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد وکلا تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ وکلا رہنما حامد خان، اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کی زیر قیادت بارز نے بھی وکلا کنوشن منعقد کیے، احتجاجی مظاہرے کیے اور لاہور میں مال روڑ پر گذشتہ روز ہائی کورٹ بار کے زیر اہتمام ریلی بھی نکالی گئی۔
رابعہ باجوہ کے بقول، ’ہماری تحریک کا مقصد ماورائے آئین اقدامات سیاسی انتقامی کارروائیاں اور عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنا ہے۔ یہ سیاسی تحریک نہیں ہے بلکہ آئین و قانون کی بالادستی اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے جدوجہد ہے۔
’وکلا نے پہلے بھی جمہوریت کی بحالی میں نمایاں کردار ادا کیا اب بھی کر رہے ہیں۔ کوئی بھی ادارہ کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنے کا اختیار نہیں رکھتا اسی لیے ہم سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔‘
سینیئر قانون دان محمد بخش مسعود ہاشمی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق عام شہریوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں بلکہ آئینی عدالتوں میں ہوسکتا ہے۔
’اس لیے ہم تحریک چلا رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ نئے چیف جسٹس اس معاملے پر ایکشن لیتے ہوئے انتقامی کارروائیاں روکیں گے اور فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کا بھی نوٹس لیں گے۔‘
مسعود ہاشمی کے بقول، ’اگر نامزد چیف جسٹس بارز کا ساتھ دیں گے تو وکلا بھی ان کے پیچھے کھڑے ہوں گے جیسا کہ ان کی شہرت آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے والے جج کی ہے تو ہمیں یقین ہے وہ اسے ثابت بھی کریں گے۔
’امید ہے وہ از خود نوٹس اور بینچز کی تشکیل کے معاملے پر بھی آئین و قانون کے مطابق عمل کریں گے اور وکلا تحریک سے متعلق بھی مثبت رائے قائم کریں گے۔‘
پاکستان میں سیاسی عدام استحکام کی وجہ سے تقریبا ہر ادارے کا سربراہ جانے کے بعد متنازع ہو جاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئے چیف جسٹس کس حد تک دامن بچا پائیں گے۔