دنیا کے خاتمے کے بارے میں امریکی ادیب و ناقد ٹی ایس ایلیٹ نے بڑی مایوس کُن پیش گوئی کی تھی۔ لکھا کہ دنیا دھماکے سے یک لخت نہیں بلکہ آہستہ آہستہ ختم ہوگی۔ برطانوی شاعر جان کوپر کلارک نے لفاظی کی اور کہا کہ دھماکے سے نہیں بلکہ ومپی برگر سے ختم ہوگی۔ زیادہ امکان ہے کہ دنیا کا خاتمہ کے ایف سی یا برگر کنگ کی وجہ سے ہوگا۔
ہم کھاتے کھاتے اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگر اپنے موٹاپے سے نہیں تو گائے کی تعداد سے۔ بحری اور ہوائی جہازوں، ریل گاڑیوں اور کاروں کے مجموعی دھوئیں سے زیادہ گائے کی ریح آلودگی پھیلا رہی ہے۔ (چونکہ برگر بنانے کے لیے گوشت چاہیے اور گوشت کی پیداوار کے لیے مویشی) اِس لیے برگر کے ہر نوالے کے ساتھ ہمارا سیارہ بھی قتل ہو رہا ہے۔ نوالہ نوالہ کرکے۔
تباہی کا خمار ہم پر حاوی رہتا ہے۔ ایسے ہی خمار نے ہمیں پہلی جنگِ عظیم میں دھکیل دیا کیونکہ ہم میں امن سے لگاؤ کی خاصی کمی ہو گئی تھی۔ اینڈ از نائیی آجکل ایک وڈیو گیم ہے۔ نام کا مطلب ہے تباہی آئی کہ آئی۔ کھیلنے والے کہتے ہیں کہ وہ تباہی کے شوقین تو نہیں لیکن وڈیو گیم میں حریف کو شاندار طریقے سے نیست و نابود کر دینے سے بڑی عزت اور شاباش ملتی ہے۔ یعنی جتنی تباہی اتنا نام۔
موٹاپے کی عالمگیر وباء بہت تکلیف دہ ہو سکتی ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہو گی کہ خدانخواستہ کسی ٹوٹتے تارے کی شعائیں ہمیں یکدم جلا کر راکھ کر دیں۔ سر سے پاؤں تک بھسم کر ڈالیں۔ ایسے امکان کے بارے میں سویڈن کے ایک دوست سے بحث ہو رہی تھی تو اچانک خاتمے اور آہستہ آہستہ پھیلنے والی وباء سے خاتمے کا موازنہ بریگزٹ سے کیا۔ یعنی یورپی یونین چھوڑ دینے کے برطانوی فیصلے سے۔ کہنے لگا ” کم از کم پریشانی کی اذیت سے نہیں گزرنا پڑے گا”۔ اگلے ارب سال تک کوئی ٹوٹا ہوا تارہ ہم سے نہ ٹکرایا تو نوبت آسکتی ہے کہ بریگزٹ کی طرح ہمیں آلودہ کرۂ ارض چھوڑنے کے لیے اپنی کہکشاں ملکی وے سے نکلنے کے مذاکرات کرنا پڑیں اور اس سے باہر دیگر کہکشاؤں میں منتقل ہونا پڑے۔
برطانوی ماہرِ طبیعات سٹیفن ہاکنگ کے مطابق کبھی بھی ممکن ہے کہ کوئی بھوکا بلیک ہول (فرضی فلکیاتی شے جو مادے کو غائب کر دیتی ہے) ہماری جانب بڑھے اور ایک ہی نوالے میں کرۂ ارض کو ہڑپ کر لے۔ البتہ ہمارے اچانک خاتمے کا زیادہ امکان فرضی زرے سٹرینجلیٹ (اجنبی زرہ) کی وجہ سے ہے جو عام مادہ بنانے والے زرے ایٹم کی نسبت کہیں زیادہ سکڑا ہوتا ہے۔ سائنسدانوں کا خوفناک مفروضہ ہے کہ سٹرینجلیٹ اپنا اثر متعدی مرض کے جراثیم کی طرح پھیلاتا ہے۔ اگر یہ عام مادے سے ٹکرا جائے تو اُس کی کثافت اور حئیت بدل کر نیا مادہ بنا سکتا ہے۔ سٹرینجلیٹ کرۂ ارض پر پھیل جائے تو اسے اتنا سکیڑ سکتا ہے کہ اس کی چوڑائی محض سو میٹر رہ جائے گی۔
ان حالات میں میرا حجم کتنا گا؟ میری غذا تو زرے سے بھی کم ہو گی۔ میرے یہ خیالات اسٹرانومر رائل مارٹن ریس اور ان کی نئی کتاب آن دا فیوچر: پراسپیکٹس آف ہیومینیٹی (مستقبل کے متعلق: انسانیت کے امکانات) کی وجہ سے ہیں۔
وہ اکثر کہتے ہیں کہ وہ نجومی ہیں نہ اُن کے پاس کرسٹل بال (جادوئی گیند) ہے لیکن ان کی کتاب منجھے اور مدلل انداز میں ہماری بقاء کے امکانات کا جائزہ پیش کرتی ہے۔ ہمارا وجود صفر ہو جائے جونہی سورج اپنی جگہ سے زرا سا ہل جائے۔ماہر اقتصادیات مینارڈ کنگ نے کہا تھا کہ ”طویل عرصے میں ہم سب مردہ ہیں”۔ عجیب مگر پرسکون خیال ہے۔ یک لخت تباہی کے بارے میں جو یکجہتی اور برابری ملتی ہے وہ دیگر تمام صورتوں میں کم دکھائی دیتی ہے۔ اگر ہر کوئی جل کر دھواں ہو رہا ہو تو آپ کوبھی اسی طریقے سے ختم ہونا تکلیف دہ نہیں لگے گا۔
ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی بھٹکا ہوا شہابیہ سنوکر کے گیند طرح ہمارے سیارے سے ٹکرا جائے۔ لیکن ویسا ہونے کا کوئی امکان نہیں جیسا فلم آرماگیڈن میں ہوا کہ سیارے کو بچانے کے لیے اداکار بروس وللس موجود تھا۔
عظیم شعلے کی نذر ہو جانے کا تصور ہمیشہ پرکشش لگتا ہے لیکن مارٹن ریس کے نکتۂ نظر میں یہ خام خیالی ہے۔ سٹیفن ہاکنگ کا یہ نظریہ بھی کہ ہر کوئی خلاء کو کوچ کر جائے۔ ریس کہتے ہیں ”مریخ کو انسانی رہائش کے قابل بنانا ہمارے اپنے موسم کو درست کرنے کی نسبت کہیں زیادہ مشکل ہے۔ نظام شمسی میں کوئی مقام ایسا نہیں جو اس سیارے کی جگہ سے آدھی حد تک بھی موزوں بھی ہو"۔ اگر خلاء کو کوچ کرنا بھی پڑے کو راکٹ پر تو ایلان مسک، جیف بیزوس اور رچرڈ برانسن جیسے ارب پتی مہم جو ہی سوار ہوں گے۔
میں مارٹن ریس سے ملنے کیمبرج یونیورسٹی کے ٹرنیٹی کالج گیا جہاں نیوٹن پڑھا کرتے تھے اور جہاں ریس کچھ عرصہ پہلے تک استاد تھے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ سٹرینجلیٹ کا ذکر نہ کرنا۔ لیکن معذرت خواہ ہوں کہ سٹرینجلیٹ کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ زرہ کیڑے کی طرح آپ کے تصور میں گھس جاتا ہے اور آپ کوئی اور بات کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ اور انٹرنیٹ پر تحقیق کریں تو اس کے نام پر بے شمار ویب سائٹ کھلنے لگتی ہیں۔