پاکستان کے شہروں مستونگ اور ہنگو میں ہونے والے بم دھماکوں کو دو دن گزر چکے جن میں 60 افراد جان سے گئے لیکن تاحال کسی شدت پسند گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور نہ حکومت نے کسی کا نام لیا ہے۔
بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی کا کہنا ہے کا ’دہشت گردی‘ کے واقعات پورے پاکستان میں ہو رہے ہیں اور ہر روز ہو رہے ہیں جن کا ایک مستقل طریقہ واردات ہے لیکن اس کے پیچھے ایک ’ماسٹر مائنڈ ہے۔‘
کوئٹہ میں اتوار کو مستونگ حملے سے متعلق پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی نے کہا کہ ’اب بہت ہوا، کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ ’ہم نے ان دہشت گردوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔‘
اخباری کانفرنس میں جب جان اچکزئی سے سوال کیا گیا کہ ان حملوں میں کس تنظیم یا دہشت گرد کا ہاتھ ہے؟ تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’پراکسیز کسی بھی شکل میں ہو سکتی ہیں، کوئی بھی نام استعمال کر سکتے ہیں، کوئی لبادہ اوڑھ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ان کے ماسٹر مائنڈ کے پیچھے جائیں گے جو ان پراکسیز کو چلا رہے ہیں اور یقینی بنائیں گے کہ وہ جہاں بھی بیٹھے ہیں ہم جا کر انہیں ان کی بلوں سے نکالیں گے اور چن چن کے شہدا کا بدلہ لیں گے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ہمارے ہمسایہ ملک جس میں سے لگ یوں رہا ہے جیسے ماضی قریب میں انڈیا کی ریاستی دہشت گردی کے بلوچستان کی سرزمین پر ہمارے پاس کھلے ثبوت ہیں۔ اگر یہ تانے بانے آج بھی ادھر ملیں گے تو دشمنوں کا خاتمہ یقینی بنائیں گے۔‘
جان اچکزئی نے مستونگ حملے میں مرنے والے افراد کے اہل خانہ اور زخمیوں کے لیے مالی امداد کا اعلان بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہر شہید کو 15 لاکھ، شدید زخمی کو پانچ لاکھ جبکہ معمولی زخمی کو دو لاکھ روپے دیے جائیں گے۔‘
نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے گذشتہ روز ان حملوں میں انڈین خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’سہولت کار کا کردار ادا کرنے والے جو بھی یہ کام کر رہے ہیں وہ سب ہمارے لیے ایک جیسے ہیں اور سب کی ایک اصلیت ہے۔ سب ایک ہی جگہ سے استمعال کیے جا رہے ہیں، اس سب میں را کا ہاتھ ہے۔‘
جہاں ایک طرف ان واقعات کو ’حکومتی اداروں کی ناکامی‘ گردانا جا رہا ہے تو دوسری جانب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ ان واقعات میں کون سا شدت پسند گروہ شامل ہو سکتا ہے؟
شدت پسند تنظیمیں خاموش کیوں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا اکیلی مقامی شدت پسند تنظیمیں ایسے واقعات کی منصوبہ بندی کر سکتی ہیں؟ یا مقامی تنظیموں کو بیرونی حمایت ملنا کتنا ممکن ہے؟
ماضی میں صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں تعینات رہنے والے دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفی نے کہا کہ خطے میں پاکستان ہی دہشت گردی کا شکار کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں کیے گئے حملوں میں افغانستان کی سرزمین استعمال ہوتی ہے؟
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ داعش کب وجود میں آئی اور کہاں کہاں پائی جاتی ہے؟ غلام مصطفی نے بلوچستان میں داعش کی موجودگی سے متعلق کہا کہ ’یہ دنیا کی پہلی ایسی دہشت گرد تنظیم تھی جس کا اپنا علاقہ تھا۔ جب بھی مغربی طاقتیں عراق، شام اور افغانستان پہنچیں داعش وہاں بھی پہنچ گئی۔‘
انہوں نے کہا ایسے حملوں سے پاکستان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
’حملوں کی ذمہ داری کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں کیوں کہ یہ عید میلاد النبی کے جلوس میں ہوئے یا اسی روز ہوئے، کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو پتہ ہے کہ یہ قبول کریں گے تو لوگ ان کے خلاف ہو جائیں گے۔‘
اکثر سکیورٹی تجزیہ کار بھی حکومتی اہلکاروں کی طرح غیرملکی عناصر کے ملوث ہونے پر اس مرتبہ زور دے رہے ہیں۔
ایسے واقعات بیرونی طاقت کی مدد کے بغیر ممکن ہیں؟
غلام مصطفی نے مستونگ اور ہنگو حملوں میں انڈیا کی جانب سے سہولت کاری کا الزام لگاتے ہوئے کہا ’کرنے والے وہی ہیں جو کبھی ایک نام استمعال کرتے ہیں تو کبھی دوسرا، ان کا مرکز نئی دہلی میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں نئی دہلی والے ملوث ہیں اور ان کی حمایت کرنے والے برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل میں موجود ہیں۔‘
خصوصا بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بم دھماکے ہونے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے ان واقعات سے یہ بتا دیا ہے کہ ان کی پہنچ کہاں تک ہے اور ان میں کتنی قابلیت ہے۔
’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تناظر میں بلوچستان اور افغانستان کے تناظر میں خیبر پختونخوا انتہائی اہم ہے۔ ایسے میں دونوں صوبوں سے آوازیں اٹھیں گی جس سے ریاست کمزور ہوگی۔‘
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جو ماضی میں پاکستان میں ہونے والے کچھ بڑے حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے نے مستونگ اور ہنگو حملوں نہ صرف میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے بلکہ ان کی باقاعدہ مذمت بھی کی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان سے سے سوال کیا کہ کیا ان کا کوئی سپلنٹر گروپ ان حملوں میں ملوث ہو سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ان کی جانب سے اس رپورٹ کی اشاعت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ ماضی قریب میں اگر ٹی ٹی پی کسی حملے کی ذمہ داری نہیں لیتی تھے تو کوئی دوسرا چھوٹا غیرمعروف گروپ یہ ذمہ داری اٹھا لیتا تھا۔
لیکن اس مرتبہ چونکہ ہدف عید میلاد النبی کا جلوس بن گیا لہذا کسی بھی شدت پسند تنظیم کے لیے اسے قبول کرنا مناسب نہیں تھا۔
سابق سیکریٹری داخلہ اور دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد نعیم لودھی نے بھی کسی ’بیرونی طاقت کی مدد کے بغیر‘ ان حملوں کے ہونے کی نفی کی ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ تقریباً تین ماہ قبل کالعدم ٹی ٹی پی کے گروپوں اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو دوبارہ منظم کیا گیا۔
’ہمیں اندازہ تھا کہ اس سب میں دشمن ملک ہی ملوث ہو سکتا ہے جس کا امکان بہت زیادہ ہے۔ انڈیا ویسے بھی دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست سمجھی جاتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’حالیہ دنوں کالعدم ٹی ٹی پی سے منسلک ہائی پروفائل افراد افغانستان میں مارے گئے ہیں جبکہ بلوچستان میں دو سال سے عسکریت پسند گھوم رہے ہیں، ہمیں اس کا پتہ نہیں چلتا؟ انہوں نے انڈیا کا نام لیے بغیر کہا کہ تمام کانٹے وہیں جا کر ملتے ہیں۔‘
سابق سیکریٹری وزارت دفاع نے کہا کہ ’یہ گروپ چاہے جتنے بھی منظم ہو جائیں لیکن بیرونی قوتوں کے بغیر کام نہیں کر سکتے۔ کسی کو رہنمائی کی ضرورت تو کسی کو مقامات تلاش، نقل و حرکت کا پتہ لگانا یا فنڈنگ درکار ہوتی ہے۔ یہ سب بیرونی کوشش کے بغیر نا ممکن ہے۔‘
داعش اور لشکر جھنگوی کی موجودگی؟
بلوچستان میں صحافی سید علی شاہ نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مستونگ میں ہونے والا یہ پہلا دھماکہ نہیں، یہاں ماضی میں ہزارہ برادری کو بار بار نشانہ بنایا گیا اور پاکستان سے ایران جانے والے زائرین کو بھی قتل کیا جاتا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں مستونگ میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں سے اس علاقے میں عسکریت پسند موجود ہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں جیسے داعش اور لشکر جھنگوی کی آپس میں نظریاتی قربت ہے۔ ٹی ٹی پی نے اس واقعے سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے، اس کے بعد داعش کا آپشن رہتا ہے جو لشکر جھنگوی کے ہی زیادہ قریب ہے۔‘
سید علی نے کہا کہ ’افغانستان کی سرحد پر واقع تمام علاقوں میں پہلے سے طے شدہ سازش کے تحت گذشتہ چار دہائیوں میں شدت پسندی، عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا جس کے بعد انتہا پسند گروہ منظر پر آئے۔ مستونگ بھی ان علاقوں میں سے ایک ہے۔‘
کیا یہ سکیورٹی لیپس تھا؟
بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا حملے کی ’ذمہ داری قبول کرنے‘ کو عموما ایک موقع کے طور پر بھی لیا جاتا ہے ’واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کوئی بھی دہشت گرد تنظیم اکیلے کام نہیں کر سکتی بلکہ ان کے ساتھ ایک نیٹ ورک ہوتا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ سکیورٹی لیپس ہوا ہے۔ ریاست کی طاقت جو کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے زیادہ ہے، کا استعمال نہیں کیا گیا اس لیے یہ واقعہ ہوا۔‘
وزیر اطلاعات نے کسی بھی ملک کا نام لیے بغیر کہا ’یہ تمام گروہ اکیلے کام نہیں کر سکتے، ان کے پیچھے منظم ریاستی طاقت، مشینری اور وسائل ہوتے ہیں۔ کئی دہائیوں پہلے ہمارے ہمسائے نے ایک ریاستی پالیسی لانچ کی جو ان پراکسی گروپس کو چلا رہے ہیں۔‘