اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے انڈین حکومت سے اس کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے حوالے سے 2019 میں کیے گئے اقدامات کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
او آئی سی کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل يوسف الضبيعي نے اسلام آباد میں پاکستانی سیکریٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی کے ہمران میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ او آئی سی انڈیا سے اس کے ایک رکن ملک کے خلاف کیے گئے غیر قانونی اقدام کی واپسی کا مطالبہ کرتی ہے۔
’میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ او آئی سی کے دوسرے ارکان بھی چاہتے ہیں کہ انڈیا 2019 کے غیر قانونی اقدامات کو واپس لے۔‘
انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو اس کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت، یا خود مختاری کو منسوخ کر دیا تھا-
انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال او آئی سی کا نمائندہ وفد انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر گیا تھا، جس کا مقصد وہاں کی صورت حال کو خود دیکھنا اور زمینی حقائق جاننا تھا۔ ’اور اس سے جموں و کش میر کے مسئلے پر او آئی سی کی سنجیدگی واضح ہوتی ہے۔‘
يوسف الضبيعي، جو او آئی سی سیکریٹری جنرل کے جموں و کشمیر کے لیے خصوصی نمائندے بھی ہیں، نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ھالیہ اجلاس کی سائڈ لائنز پر مسئلہ کشمیر سے متعلق گروپس کے اجلاس ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کشمیری عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ ہے اور ان کے حقوق کے حصول کے لیے ان کے تمام قانونی و جائز اقدامات کی حمایت کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے حالیہ دوسرے کا مقصد بھی خطے کی صورت حال کو جانچنا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ بہت پرانا ہے اور ہمیشہ سے او آئی سی کے ایجنڈے پر رہا ہے۔ ’گذشتہ چار دہائیوں کے دوران او آئی سی نے اس مسئلے اور کشمیری عوام سے متعلق کئی قراردادیں منظور اور فیصلے کیے اور ہم آئندہ بھی ایسا ہی کرتے رہیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ او آئی سی کی قراردادوں، فیصلوں اور پالیسیوں کا مقصعد کشمیری عوام کی مدد کرنا رہا ہے۔
او آئی سی کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل نے بتایا کہ اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ اجلاس میں او آئی سی نے کشمیر پر ایک جامع رپورٹ پیش کی، جس کے لیے رکن ممالک کے وزرا کے اجلاس میں تجاویز اور آرا مانگی گئیں تھیں۔