اس سال پاکستان میں عسکریت پسندی کے تین نئے رجحانات ابھرے ہیں جو غیر متناسب تنازعات کی توسیع، غیر ریاستی پرتشدد عناصر کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں اور پاکستان میں شدت پسندی کے صنفی کردار کے ارتقا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
پہلا رجحان جو پاکستان کے عسکریت پسندانہ منظر نامے پر ابھرا وہ ایک غیر معروف عسکریت پسند گروپ تحریک جہاد پاکستان تھا۔ اس گروپ نے پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں فوجی تنصیبات اور قافلوں کے خلاف کچھ ہائی پروفائل خودکش حملے کیے تھے۔
اگرچہ ٹی جے پی کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ تاہم معلومات اور حالات کی بنیاد پر یہ نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں کہ ٹی جے پی تحریک طالبان پاکستان کا ایک فرنٹ گروپ ہے، جو اپنی طرف سے خودکش حملوں جیسی کاروائیاں سرانجام دیتا ہے۔
اسی طرح ٹی جے پی تحریک طالبان کی طرح نرم اہداف پر حملہ نہیں کرتی ہے، جو کہ اوّل الذکر کی حکمت عملی سے مطابقت رکھتا ہے۔ بلوچستان میں ٹی جے پی کا ظہور بھی صوبے میں ٹی ٹی پی کے داخلے سے ملتا جلتا ہے، جس سے کچھ ماہرین کا یہ خیال ہے کہ جہادی دھڑے جنہوں نے بلوچستان سے ٹی ٹی پی کے ساتھ کام کرنے کا عہد کیا تھا، اب وہ ٹی جے پی کے نام پر کارروائیاں کر رہے ہیں۔
بہرحال ٹی ٹی پی جولائی میں یہ انکشاف کرنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ ٹی جے پی اس کی ایک ’برادر جہادی تنظیم‘ ہے۔
ایک حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے متعلق ٹی ٹی پی کے منحرف کمانڈر اسد آفریدی کے ساتھ لفظی جنگ اس وقت شروع ہوئی جب حملے کی ذمہ داری اسد آفریدی اور ٹی جے پی دونوں نے قبول کی۔ آفریدی نے الزام لگایا کہ ٹی جے پی تحریک طالبان پاکستان کا ایک دھڑا ہے، جو ٹی ٹی پی نے جماعت الاحرار کے حملوں سے دوری اختیار کرنے کے لیے بنائی ہے۔
یاد رہے کہ جماعت الاحرار کے سربراہ عمر خالد خراسانی کے قتل کے بعد سے دونوں دھڑوں میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔
مزید برآں ٹی جے پی کا تعلق دیوبندی مکتبہ فکر سے ہے جیسا کہ وہ اپنے سوشل میڈیا بیانات میں دعویٰ کرتی ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے درمیان اس کے خودکش حملوں کی نفاست اور جغرافیائی پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تجربہ کار عسکریت پسندوں پر مشتمل ہے جن کے پاس کافی جنگی صلاحیتیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹی جے پی نے بلوچستان میں کچھ حملوں کی ذمہ داری قبول کی جن کی ذمہ داری داعش نے بھی قبول کی تھی۔
ٹی جے پی داعش کے حملوں کے دعوؤں کو کمزور بنانے کے لیے متنازع بنا کر پیش کر رہی ہے اور حکمت عملی سے داعش کو کمزور کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
دوسرا، ٹی جے پی کے صفوں میں طالبان اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں کے مبینہ طور پر کچھ ارکان بھی ہیں۔ جو امریکہ کے نکلنے کے بعد اور افغانستان میں امارت اسلامیہ کی بحالی کے بعد ایک شرعی ریاست کے قیام کے لیے پاکستان میں عسکریت پسندی جاری رکھنے کے خواہشمند تھے۔ لہذا ان عسکریت پسندوں کی تنظیمی شناخت کو چھپانے کے لیے ٹی جے پی کو ٹی ٹی پی کے فرنٹ گروپ کے طور پر بنایا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ طالبان حکومت نے اپنے جنگجوؤں کو ہدایت کی کہ وہ سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی اجازت کے بغیر افغانستان سے باہر نہ لڑیں۔
اسی طرح دوحہ معاہدے 2020 کے تحت طالبان اس بات کو یقینی بنانے کے پابند ہیں کہ افغانستان کی سرزمین القاعدہ، دیگر گروپوں کے علاوہ دوسرے ممالک کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہیں ہو گی۔
اس سال دوسرا رجحان دہشت گردی کے حملوں میں خواتین کی شرکت تھی اور ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کی جانب سے خواتین پر مبنی پروپیگنڈہ کرنے کی کوششیں بھی نمایاں رہی ہیں۔ 25 جولائی کو بی ایل اے کی دوسری خاتون خودکش بمبار سمعیہ قلندرانی بلوچ نے تربت میں سکیورٹی کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا۔ اس کے بعد بی ایل اے کے پروپیگنڈہ ونگ ہکل نے خواتین کی بھرتی کو بڑھانے کے لیے اپنی ان دو خواتین خودکش بمباروں کے حوالے سے کئی مضامین اور رپورٹس شائع کیں۔ بی ایل اے کے خودکش ونگ مجید بریگیڈ کا دعویٰ ہے کہ خواتین کے خودکش دھماکوں کے بعد کئی بلوچ خواتین اس مشن پر چلنے کے لیے تیار ہیں۔
جبکہ اس سال ٹی ٹی پی نے العمر میڈیا کے ذریعے خواتین پر مبنی پروپیگنڈہ مواد تیار کرنے پر اپنی توجہ بڑھا دی ہے۔ مثال کے طور پر جولائی 2023 میں گروپ نے خواتین کے لیے اردو زبان کا ایک ماہانہ رسالہ ’بناتِ خدیجۃ الکبریٰ‘ شائع کرنا شروع کیا۔ اب تک اس گروپ نے اس میگزین کے دو شمارے شائع کیے ہیں۔ خواتین پر مبنی پروپیگنڈہ مواد شائع کرنے کی یہ ٹی ٹی پی کی دوسری کوشش ہے۔ پہلی کوشش 2017-2018 میں ہوئی تھی جب اس نے انگریزی زبان کے میگزین سنتِ خولہ کے دو شمارے نکالے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ستمبر میں لاہور اور شیخوپورہ شہروں میں داعش سے تعلق رکھنے والی پانچ خواتین عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا گیا- اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ داعش پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے بھرتی کرنے کے حوالے سے کام کر رہی ہے جبکہ ماضی میں داعش سے تعلق رکھنے والی خواتیں کو کراچی اور لاہور سمیت دیگر علاقوں سے گرفتار کیا جا چکا ہے۔
دہشتگردی کے واقعات اور ان کی قبولیت
سال 2023 میں تیسرا رجحان دہشت گردانہ حملوں کو قبول نہ کرنے کا رہا ہے، جو پاکستان کے شدید مسابقتی خطرے کے منظر نامے میں نایاب ہیں۔ تاہم کسی بھی گروپ نے 2023 میں پاکستان میں ہونے والے کچھ ہائی پروفائل حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی، جن میں خودکش بم دھماکوں بھی شامل تھے۔
19 فروری کو پشاور میں ایک مذہبی سکالر مولانا اعجاز احمد حقانی کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی، جس کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔ اسی طرح بلوچستان کے ضلع ژوب میں جماعت اسلامی (جے آئی) کے سربراہ سراج الحق کو نشانہ بنانے والے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والا کوئی گروپ نہیں تھا۔ اس حملے میں سراج الحق بال بال بچ گئے تھے۔ اسی طرح 29 ستمبر کو مستونگ میں عید میلاد کے جلوس پر خودکش حملہ ہوا اور اسی دن خیبر پختونخواہ کے شہر ہنگو میں ایک مسجد کو نشانہ بنایا گیا جسے کسی نے بھی قبول نہیں کیا۔
مندرجہ بالا رجحانات غیر متناسب تصادم کے ایک نئے مرحلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور مؤثر طریقے سے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کی بنیادی وجوہات کا گہرائی سے ادراک ضروری ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔