وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ نے پچھلے ایک سال میں اتنے غیرسنجیدہ بیانات دیئے ہیں کہ شاید ایک نیا ریکارڈ بن جائے۔ ایک بلین نوکریاں، دو سو روپے کا پیٹرول بھی عوام کو قبول، ٹرمپ سے ملاقات جیسے ورلڈ کپ کی جیت، وسیم اکرم پلس، مودی کی الیکشن جیت کشمیر کے حل کے لیے ضروری اور پچاس لاکھ گھر۔ یہ وہ چند غیر سنجیدہ بیانات ہیں جو میں مثال کے طور پر آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ عمران خان اور ان کی کابینہ غیرسنجیدہ اور نااہل لوگوں پر مشتمل ہے جو صرف اپنی ذات اور اپنے فائدے سے زیادہ اور کچھ نہیں جانتی۔
اب کل ایک وزیر نے یہ بیان دیا ہے کہ ہمارے پاس پاؤ پاؤ کے ایٹمی بم ہیں۔ پاکستان پر دنیا ویسے بھی شک کرتی ہے کہ اس کے پاس ٹیکٹیکل ہتھیار ہیں مگر ہم نے کبھی سرکاری طور پر اس بات کو قبول نہیں کیا۔
اب ایک ایسا وزیر جسے وزیر اعظم کا خاص دوست ہونے کا دعوی ہے اس نے یہ بیان دیا ہے کہ ہمارے پاس چھوٹے جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ دھمکی بھی دی کہ ہم پہل کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ یہ دونوں بیانات انتہائی سنجیدہ ہیں اور پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے لیے استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ اب تک کسی کی طرف سے اس کی تردید نہیں آئی جو ایک طرح سے اس کی تصدیق ہے۔
دوسرے وزیر اس بات کا دفاع اس طرح کر رہے ہیں کہ اس بات کو سنجیدہ نہ لیا جائے۔ یہ بھی ایک امر ہے کہ ماضی میں ایسا بیان کسی سویلین وزیر نے دیا ہوتا تو اب تک اس پر سرکاری راز فاش کرنے کی پاداش میں غداری کے کئی مقدمات بن چکے ہوتے۔
وزیر اعظم عمران خان نے خود ایک جگہ بیان دیا کہ پاکستان کبھی پہلے جوہری ہتھیار استعمال نہیں کرے گا جس پر وزارت خارجہ کو وضاحت کرنی پڑی کہ ملک کی جوہری ہتھیاروں سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور عمران خان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔
مگر بات اگر صرف غیرذمہ دارانہ بیانات تک ہی رہتی اور حکومتی کارکردگی اچھی ہوتی تو شاید گزارہ ہو جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے ایک سال میں صورت حال پریشان حد تک خراب ہو چکی ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق پچھلے ایک سال میں قرضوں میں دس ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ رقم کسی ترقیاتی کام میں خرچ نہیں ہوئی بلکہ حکومت چلانے میں لگی جس کا مطلب یہ ہے کہ کھایا پیا ہضم کیا اور اب نہ صرف یہ رقم واپس کرنی ہے بلکے اس پر نفع بھی دینا پڑے گا۔ ایک طرف خزانے پر مزید قرض کا بوجھ دوسری طرف تین سو ارب روپے کا فائدہ اپنے امیر دوستوں کو دیا جس میں نہ صرف پرائم منسٹر کے مشیروں کا ذاتی فائدہ ہوا بلکہ ان کے رشتہ داروں کو بھی نوازا گیا۔
جتنی زیادہ توجیہات وہ دے رہے ہیں اس عمل کے دفع میں اتنا لوگوں پر واضع ہو رہا ہے کہ قانونی کرپشن کیا ہوتی ہے جسے کوئی عدالت پکڑ نہیں سکتی۔ امیر مزید امیر ہو رہا ہے مگر متوسط طبقے اور غریب آدمی کو ہر چیز خریدنے پر سترہ فیصد ٹیکس دینا پڑتا ہے یعنی اگر آپ ہزار روپے کا سودا خریدیں تو اس میں سے ایک سو ستر روپے حکومت کی جیب میں جا رہے ہیں۔ یہ ٹیکس امیر لوگوں کے مفاد میں خرچ ہو جاتے ہیں اور غریب کے بچے کو بنیادی تعلیم تک نہیں دے سکتے۔
اقتصادی، معاشی، قانون سازی اور خارجہ پالیسی ہر شعبے میں اس حکومت کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ہے۔ میں کئی مہینوں سے یہ بات کہہ رہا ہوں کے موجودہ وزیر اعظم اس قابل نہیں ہیں کے حکومت چلا سکیں اور اب یہ تیسرے امپائیر کی ذمہ داری ہے کہ اندرون پارلیمان تبدیلی کا بندوبست کریں۔ جتنی دیر کی جائے گی اتنے ہی حالات مزید خراب ہوں گے۔ کسی آئین یا قانون میں یہ نہیں لکھا کہ جو پارٹی کا صدر یا چئیرمین ہوگا وہی وزیر اعظم بھی ہو گا۔
میں آپ کو یہ بھی کہتا رہا ہوں کہ موجودہ جمہوریہ صرف امراء اور شرفاء کے مفاد میں کام کرتی ہے اور عوام کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں۔ اب ہم سب کو مل کر ایک نئی جمہوریہ کے لیے تحریک شروع کرنی چاہیے۔ جب بھی میں یہ بات کرتا ہوں تو کچھ دوست یہ رائے دیتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ انقلابی نہیں ہیں اور وہ مار کھاتے رہیں گے مگر باہر نہیں نکلیں گے۔ مگر میں اب بھی پر امید ہوں کے لوگ نہ صرف اپنے بلکہ پورے ملک کے مفاد میں ضرور نکلیں گے۔ وقت بتائے گا کہ کون صحیح تھا۔
۔۔۔۔
نوٹ: اس مضمون میں مصنف نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور اس کے ساتھ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔