سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کی سزا کے خلاف دائر ریفرنس پر منگل کو سماعت کے بعد جیو نیوز اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت جنوری 2024 تک ملتوی کر دی۔
عدالت عظمیٰ نے جیو نیوز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چینل کے پاس موجود ذوالفقار بھٹو کیس سے متعلق انٹرویوز اور کلپس کا ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار چاہے تو نمائندگی کر سکتی ہے۔
اس ریفرنس پر سماعت کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا، جس کی سماعت آج براہ راست نشر کی گئی تھی۔
لارجر بینج میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔
2011 میں دائر کیے گئے اس صدارتی ریفرنس پر سماعت کے آغاز سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کی کارروائی پہلے پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کی جاتی تھی تاہم اب کمیٹی کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر کارروائی لائیو نشر ہوگی۔
انہوں نے وکیل فاروق ایچ نائیک کے ساتھ مکالمے کے دوران کہا کہ ان کی درخواست آنے سے پہلے لائیو نشریات کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔
سماعت کا باقاعدہ آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا: ’یہ صدارتی ریفرنس ہے تو کیا حکومت اب بھی اس کیس کو چلانا چاہتی ہے؟‘
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انہیں ہدایات دی گئی ہیں کہ حکومت اسے چلانا چاہتی ہے۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ وہ بلاول بھٹو زرداری کی نمائندگی کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وہ انہیں ورثا کے طور پر اور سیاسی جماعت کے وکیل کی حیثیت سے بھی سن سکتے ہیں۔
’صدارتی ریفرنس اب بھی برقرار ہے یہ واپس نہیں لیا گیا۔‘
وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ انہیں بھی سنا جائے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہر قانونی وارث کا حق ہے کہ اسے سنا جائے۔‘ ان کی سماعت عام انتخابات کے بعد تک موخر کرنے کی درخواست بھی عدالت نے مسترد کر دی۔
ایک موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا: ’عدالت بھٹو کیس میں فیصلہ سنا اور نظرثانی بھی خارج ہو چکی ہے۔ ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ دوسری نظرثانی نہیں سن سکتی، ایک معاملہ ختم ہو چکا ہے۔ عدالت کو یہ تو بتائیں کہ اس کیس میں قانونی سوال کیا ہے؟‘
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا: ’فیصلہ برا تھا تو بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے بدلا نہیں جا سکتا، یہ آئینی سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل فاروق ایچ نائک سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ عدالت کو کوئی قانونی حوالہ دیں۔
’آرٹیکل 186 کے تحت دائر صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر نظرثانی نہیں ہو سکتی۔ اب ہم بھٹو کے فیصلے کو چھو بھی نہیں سکتے۔ عدالت کو بتائیں کو جو معاملہ حتمی ہو کر ختم ہو چکا اسے دوبارہ کیسے کھولیں؟‘
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں دوسری نظرثانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
’کیا کل کوئی فریق آ کر پرانا مقدمہ کھلوا سکتا ہے؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔کیا کل صدر مملکت یہ ریفرنس بھیج سکتے ہیں کہ تمام پرانے فیصلوں کو دوبارہ لکھا جائے؟ پورا ریفرنس تو ٹی وی انٹرویوز کے گرد گھومتا ہے۔‘
وکیل فاروق ایچ نائک نے عدالت کو بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی صرف ایک بیٹی زندہ ہیں، ان کے آٹھ پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں ہیں، ورثا کی جانب سے جو بھی وکیل کرنا چاہے کر سکتا ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ بار چاہے تو نمائندگی کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے ججز کی دستیابی پر آئندہ سماعت کی تاریخ دینے کا کہا۔
’جنوری سے صدارتی ریفرنس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو گی۔ جنوری میں سماعت شروع ہونے پر کوئی التوا نہیں دیا جائے گا۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک موقع پر ریمارکس دیے: ’ایک سینیئر جج بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے جبکہ دو اور ججز نے ذاتی وجوہات پر معذرت کی، جس کے بعد نو رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون سے صدر نے یہ ریفرنس بھیجا تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ ریفرنس آصف زرداری نے بھیجا تھا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ان کے بعد کتنے صدر آئے؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ دو صدر آئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’کسی صدر نے یہ ریفرنس واپس نہیں لیا، سپریم کورٹ کی جانب سے پہلے ریفرنس مقرر نہ کیے جانے پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔‘
اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو سزا کس ہائی کورٹ نے سنائی؟
اٹارنی جنرل نے بتایا لاہور ہائی کورٹ نے یہ سزا سنائی۔ ’جسٹس نسیم حسن شاہ نے خود ٹیلی وژن پر دباؤ میں فیصلہ دینے کی بات کی۔‘
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نجی ٹیلی وژن چینل جیو نیوز پر افتخار احمد کے شو میں نسیم حسن شاہ نے یہ گفتگو کی تھی۔ انہوں نے عدالت کو یقین دلایا کہ اس انٹرویو کی ویڈیو اور گفتگو پر مبنی ٹیکسٹ عدالت کو پیس کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے افتخار احمد کے حیات ہونے سے متعلق استفسار کیا جس پر انہیں بتایا گیا کہ وہ زندہ ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ انہوں نے بتایا کہ کس نے ان پر دباؤ ڈالا تھا؟ فاروق نائیک نے کہا کہ اس وقت مارشل لا تھا تو مارشل لا کی بات کی گئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریفرنس کا ٹائٹل پڑھنے کو کہا اور اٹارنی جنرل نے ریفرنس میں اٹھائے گئے سوالات عدالت کے سامنے رکھ دیے۔
اس دوران جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل کے دوران بینچ پر اعتراض کی کوئی درخواست دی گئی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق متعدد درخواستیں دی گئی تھیں۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ دوسرے انٹرویو میں نسیم حسن شاہ نے کہا کہ مارشل لا والوں کی بات ماننا پڑتی ہے، انہوں نے دوسرا انٹرویو کسی انجان کو دیا تھا۔ سال 2018 میں بھی ریفرنس پر سماعت کے لیے درخواست دائر کی تھی۔
اس دوران فریق احمد رضا قصوری روسٹرم پر آ گئے اور انہوں نے جسٹس نسیم حسن شاہ کے ایک اخبار کو دیے گئے انٹرویو کا حوالہ دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو پر انحصار کریں گے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 21 اپریل 2011 کو صدارتی حکم نامہ جاری کیا گیا تھا۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ بھٹو ریفرنس میں تو کوئی سوالات تھے ہی نہیں تو سپلیمنٹری ریفرنس داخل کیوں کیا گیا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدارتی حکم نامے کے ذریعے بھٹو ریفرنس کے سوالات فریم کیے گئے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ صدارتی ریفرنس کس وکیل نے دائر کیا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سال 2011 میں بابر اعوان کے ذریعے دائر کیا گیا لیکن ان کا لائسنس دو سال کے لیے منسوخ ہوا۔
احمد رضا قصوری نے کہا صدارتی ریفرنس کی 2012 میں سماعت کے دوران بابر اعوان سے سخت سوالات ہوئے، ان کے پاس عدالتی سوالات کا جواب نہیں تھا تو وہ مشتعل ہوئے اور عدالت نے ان کا لائسنس منسوخ کیا۔ جس کے بعد چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ریفرنس کے سوالات پڑھنے کی ہدایت کی۔
سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے جیو نیوز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چینل کے پاس موجود ذوالفقار بھٹو کیس سے متعلق انٹرویوز اور کلپس کا ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے جسٹس دراب پیٹیل کے انٹرویو کا ریکارڈ بھی طلب کیا ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ بار چاہے تو نمائندگی کر سکتی ہے۔
عدالت نے ججز کی دستیابی پر آئندہ سماعت کی تاریخ دینے کا کہتے ہوئے کیس کی سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔
ریفرنس کب اور کس نے دائر کیا تھا؟
ذوالفقار علی بھٹو کے داماد اور سابق صدر آصف علی زرداری نے سال 2011 میں صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا جس پر اب تک سپریم کورٹ میں چھ سماعتیں ہو چکی ہیں لیکن صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت دو جنوری 2012 کو ہوئی جبکہ آخری سماعت اسی سال 12 نومبر کو ہوئی تھی اور آخری سماعت 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔
صدارتی ریفرنس پر پہلی پانچ سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدارتی ریفرنس پر آخری سماعت 12 نومبر 2012 کو 9 رکنی لارجر بینچ نے کی تھی۔صدارتی ریفرنس وکیل تبدیلی کی بنیاد پر ملتوی کیا گیا تھا۔
اس صدارتی ریفرنس پر عدالتی سماعت براہ راست دکھانے کی بھی استدعا کی اور اس ضمن میں پیپلز پاراتی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کیا ہے؟
ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی حکم سے پھانسی کے فیصلے پر دائر کیا گیا عدالتی ریفرنس 2011 میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 186 کے تحت دائر کیا تھا۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 186 کے مطابق صدر مملکت کسی بھی وقت اگر یہ سمجھیں کہ کسی عوامی اہمیت کے حامل سوال پر سپریم کورٹ سے رائے حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو وہ اس سوال کو رائے لینے کے لیے عدالت عظمی کو بھجوا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ اس سوال پر غور کرنے کے بعد اپنی رائے صدر مملکت کو بھجوا دے گی۔
صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات
ذوالفقار علی بھٹو کی سزا سے متعلق صدارتی ریفرنس پانچ سوالات پر مبنی ہے:
- ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟
- کیا ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہے؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟
- کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟
- کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟
- کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟