’ عدم مشاورت‘: پیپلز پارٹی کی حکومت سے ’الگ‘ ہونے کی دھمکی

پیپلز پارٹی کی ترجمان شازیہ مری نے ایک بیان میں پاکستان میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی کے قیام کے حوالے سے کہا ہے کہ وفاقی حکومت مسلسل ایسے فیصلے کر رہی ہے جن پر اعتماد میں نہیں لیا جا رہا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف چار اپریل 2022 کی تصویر میں اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران گفتگو دیکھے جا سکتے ہیں (عامر قریشی/ اے ایف پی)

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی مرکزی ترجمان شازیہ مری نے اتوار کو اہم حکومتی اور انتظامی فیصلوں پر ان کی جماعت سے ’مشاورت نہ کرنے‘ پر پاکستان مسلم لیگ ن کی زیر قیادت وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ’حکومت سے الگ‘ ہونے کی تنبیہ کی ہے۔

پیپلز پارٹی کی ترجمان شازیہ مری نے ایک بیان میں پاکستان میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی کے قیام کے حوالے سے کہا ہے کہ وفاقی حکومت مسلسل ایسے فیصلے کر رہی ہے جن پر اعتماد میں نہیں لیا جا رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز حکومت کو خبردار کیا کہ ’حکومت کی بقا کا انحصار پی پی پی کی حمایت پر ہے‘۔

وفاقی حکومت اور اس کی اتحادی پیپلز پارٹی کے درمیان تناؤ مزید گہرا ہو گیا ہے، پارٹی کے سینیئر عہدیداروں نے دسمبر میں بھی ’اعتماد کی کمی‘ کا اظہار کیا تھا۔

انٹرنیٹ کی پابندیوں جیسے مسائل، جن پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے شہریوں کو سنسر کرنے کی کوششوں کے طور پر تنقید کی تھی، دونوں اتحادی جماعتوں کے درمیان تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے۔ 

پارلیمنٹ میں پیپلز پارٹی کے اراکین کے احتجاج، بشمول وفاقی وزرا کی غیر حاضری پر واک آؤٹ، بڑھتے ہوئے اختلاف کی عکاسی کرتے ہیں، حالانکہ بلاول نے پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے ساتھ رابطے جاری رکھنے پر زور دیا ہے۔

ماضی قریب میں ملک میں آئینی عدالتوں کے قیمام کے سلسلے میں بھی بلاول بھٹو وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ پر تنقید کر چکے ہیں، جب کہ پی پی پی کے رہنما اپنے اتحادی پر حکومت سازی کی غرض سے دونوں فریقوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی خلاف ورزیوں کا الزام بھی لگاتے رہے ہیں۔

اسی طرح پیپلز پارٹی نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) میں نمائندگی اور پنجاب میں سیاسی سرگرمیوں کے لیے برابری کی بنیادوں پر مواقع نہ ملنے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، جس پر گذشتہ سال دسمبر میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان مذاکرات کے دو دور ہوئے تھے۔

اس حوالے سے نو دسمبر کو ہونے والے مذاکرات کا پہلا دور بے نتیجہ رہا تھا جبکہ دسمبر ہی کے آخر میں ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور میں دونوں جماعتوں نے پنجاب میں پاور شیئرنگ سے متعلق مختلف امور پر اتفاق کیا تھا۔

اب اتوار پانچ جنوری کو جاری ہونے والے بیان میں پیپلز پارٹی کی مرکزی ترجمان شازیہ عطا مری نے وفاقی حکومت کو پاکستان میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی کے قیام سمیت ’پی پی پی سے مشاورت کے بغیر بار بار فیصلے کرنے‘ پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شازیہ مری نے خبردار کیا کہ ’جبکہ ہم نے بار بار کہا ہے کہ وفاقی حکومت کو پی پی پی کی حمایت حاصل ہے، جس دن ہم نے یہ حمایت واپس لے لی، وفاقی حکومت گر جائے گی۔ شاید مسلم لیگ ن کو اس بات کا احساس نہیں۔‘

انہوں کا مزید کہا تھا کہ پاکستان میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی کے قیام کے فیصلے پر پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

ترجمان پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ’سندھ حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں کو اتھارٹی کے قیام کے فیصلے کے حوالے سے اندھیرے میں رکھا گیا تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی پارٹی مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی کرتی رہی تھی، جو کہ گذشتہ 11 مہینوں سے نہیں ہو سکا تھا۔

انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر الزام لگایا کہ ’آئین کی مسلسل اور کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔‘

شازیہ مری نے مزید کہا کہ وزیر اعظم ’آئینی طور پر تین ماہ کے اندر مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔

’میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی کے قیام کے معاملے کو مشترکہ مفادات کی کونسل میں لایا جانا چاہیے۔‘

انہوں نے اپنے بیان میں سوال اٹھایا کہ ’کیا اتحادیوں اور صوبوں کو شامل کیے بغیر اہم قومی معاملات پر آئین کو سبوتاژ کرنا دانشمندی ہے۔‘ 

پی پی پی کے ترجمان نے مرکز کے نقطہ نظر کو ’سمجھ سے بالاتر‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس سے دونوں اتحادیوں کے درمیان خلیج بڑھے گی۔

شازیہ مری کے خیال میں: ’میری ٹائم سیکٹر، بحری امور اور کے پی ٹی کی تجاویز پر ٹاسک فورس کی سفارشات سے پہلے اتحادیوں اور صوبوں کی رائے لی جانا چاہیے تھی۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ’اگر ملک کو آئینی بنیادوں پر چلایا جانا ’سب کے لیے بہتر‘ ہو گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست