اسرائیل نے ہفتے کو تصدیق کی ہے کہ غزہ میں فائر بندی اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے قطر میں مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب امدادی کارکنوں نے بتایا کہ غزہ پر تازہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 30 سے زیادہ افراد جان سے گئے۔
شہری دفاع کے ادارے نے کہا کہ غزہ شہر میں الغولا خاندان کے گھر پر صبح کے وقت فضائی حملے میں 11 لوگ جان سے گئے، جن میں سات بچے بھی شامل تھے۔
شجاعیہ کے علاقے کی اے ایف پی کی تصاویر میں دکھایا گیا کہ لوگ ملبے میں کچھ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملبے سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ ایک تصویر میں چھوٹے بچوں سمیت کئی لاشیں سفید چادروں میں لپٹی ہوئی زمین پر رکھی نظر آئیں۔
ادھر اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاتز نے تصدیق کی کہ قطر میں حماس کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات دوبارہ شروع ہو گئے ہیں تاکہ اکتوبر 2023 کے بعد قیدی بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کو رہا کرایا جا سکے۔
اسرائیلی وزیر دفاع کے دفتر کے مطابق وزیر نے قیدی خاتون فوجی لیری البگ کے رشتہ داروں کو بتایا کہ ’مغویوں کو آزاد کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔ خاص طور پر اسرائیلی وفد کل (جمعے کو) قطر میں مذاکرات کے لیے روانہ ہوا۔‘
اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے مذاکرات جاری رکھنے کے لیے ’تفصیلی ہدایات‘ دی ہیں۔
یہ بات انہوں نے اس وقت کہی جب حماس کے مسلح ونگ، عزالدین القسام بریگیڈز نے غزہ میں لیری البگ کی قید میں ویڈیو جاری کی۔
اس تین منٹ اور 30 سیکنڈ کی ریکارڈنگ، جس پر تاریخ درج نہیں، میں 19 سالہ فوجی اہلکار نے عبرانی زبان میں اسرائیلی حکومت سے اپنی رہائی کو یقینی بنانے کی اپیل کی۔ اے ایف پی ویڈیو کی تصدیق نہیں کر سکا۔
اس کے بعد قیدی فوجی کے خاندان نے نیتن یاہو سے اپیل کی اور کہا کہ ’یہ وقت ہے ایسے فیصلے کرنے کا جیسے وہاں آپ کے اپنے بچے ہوں۔‘
غزہ میں کل 96 اسرائیلی قیدی موجود ہیں، جن میں 34 کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ مر چکے ہیں۔
قدیوں کی رہائی کے لیے مہم چلانے والے گروپ، قیدیوں اور لاپتہ خاندانوں کے ارکان پر مشتمل فورم نے کہا کہ تازہ ویڈیو ’مضبوط اور ناقابل تردید ثبوت ہے کہ مغویوں کو گھر واپس لانا انتہائی ضروری ہے۔‘
حماس نے جمعے کی رات کہا کہ مذاکرات دوبارہ شروع ہونے والے ہیں۔
’معاہدے کو دشمنی کے مکمل خاتمے (اور) قابض افواج کے انخلا کی طرف لے جانے کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کریں گے۔‘
ثالث کا کردار ادا کرنے والے ملکوں قطر، مصر، اور امریکہ مہینوں سے جاری کوششوں میں مصروف ہیں لیکن تقریباً 15 ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت ختم کروانے میں ناکام رہے۔
دسمبر میں قطر نے امید ظاہر کی کہ امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد بات چیت میں دوبارہ ’تیزی‘ آ رہی ہے۔ ٹرمپ 16 دنوں میں عہدہ سنبھالیں گے۔
لیکن حماس اور اسرائیل نے ایک دوسرے پر نئے حالات پیدا کرنے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کا الزام لگایا۔
واشنگٹن میں اقتدار کی منتقلی کا وقت قریب آتے ہی صدر جو بائیڈن کی سبکدوش ہونے والی انتظامیہ نے کانگریس کو اسرائیل کے لیے آٹھ ارب ڈالر کے اسلحے کی فروخت کے بارے میں مطلع کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
منصوبے سے واقف ذریعے نے ہفتے کو بتایا کہ ’محکمے نے غیر رسمی طور پر کانگریس کو اسرائیل کی طویل مدتی سلامتی کے لیے اہم گولہ بارود اور فضائی دفاعی صلاحیتوں کے ذخائر کی فراہمی کے لیے آٹھ ارب ڈالر کی مجوزہ فروخت کے بارے میں مطلع کیا۔‘
امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا فوجی فراہم کنندہ ہے۔
ادھر محکمہ شہری دفاع کے ترجمان محمود بصل نے کہا کہ غزہ شہر میں الغولا خاندان کا گھر ’صبح کے حملے میں مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ یہ دو منزلہ عمارت تھی اور کئی لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی ڈرونز نے ’ایمبولینس عملے پر بھی حملہ کیا۔‘
اے ایف پی کے رابطہ کرنے پر اسرائیلی فوج نے فوری طور پر تبصرہ نہیں کیا۔
الغولا خاندان پڑوسی احمد موسیٰ نے کہا کہ ’ زبردست دھماکے نے ہمیں جگا دیا۔ سب کچھ لرز رہا تھا۔ یہ بچوں اور خواتین کا گھر تھا۔ وہاں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو مطلوب ہو یا خطرہ بن سکتا ہو۔‘
دوسری جگہ سول ڈیفنس ایجنسی نے کہا کہ اسرائیلی حملے میں پانچ سیکیورٹی اہلکار جان سے گئے، جو جنوبی شہر خان یونس میں امدادی قافلوں کے ساتھ تھے۔
حماس کے زیرانتظام غزہ کی وزارت صحت نے کہا کہ گذشتہ 48 گھنٹے میں کل 136 لوگ جان سے گئے۔
اتوار کو اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے یمن سے داغے گئے ایک میزائل کو روک لیا جو حملوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔