تربت بس حملہ، ایف سی اہلکاروں سمیت چھ افراد جان سے گئے: حکام

پولیس کے مطابق حملے کا نشانہ بننے والی بس ایف سی کے نیم فوجی دستوں کو لے کر کراچی سے تربت جا رہی تھی، جس کی ذمہ داری کالعدم گروپ بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔

11 اگست 2018 کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 340 کلومیٹر کے فاصلے پر دالبندین کے علاقے میں ایک خودکش حملے کے بعد ایک پاکستانی سکیورٹی اہلکار ایک تباہ شدہ بس کے پاس سے گزر رہا ہے، جس میں چینی انجینیئرز سوار تھے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

حکام نے بتایا کہ ہفتے کو صوبہ بلوچستان کے شہر تربت کے قریب عسکریت پسندوں کے ایک بم دھماکے میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکاروں سمیت کم از کم چھ افراد جان سے گئے اور متعدد زخمی ہو گئے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک بس ایف سی کے نیم فوجی دستوں کو لے کر کراچی سے تربت جا رہی تھی، جب اسے تربت سے تقریباً سات کلومیٹر مغرب میں نشانہ بنایا گیا۔

سینیئر مقامی پولیس افسر راشد الرحمان نے اے ایف پی کو بتایا: ’ایک بس پر بم حملے میں ایف سی کے فوجیوں اور عام شہریوں سمیت کم از کم چھ افراد جان سے گئے۔‘

انہوں نے مزید تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ واقعے میں 25 سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک سینیئر مقامی سکیورٹی اہلکار نے اے ایف پی کو اموات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بظاہر خودکش حملہ تھا اور اس میں نیم فوجی دستوں کو نشانہ بنایا گیا۔

اس سے قبل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) کیچ راشد بلوچ نے صحافی عامر باجوئی کو فون پر بتایا تھا کہ ’دھماکے کے وقت ایس ایس پی سیریس کرائم ونگ کوئٹہ ذوہیب محسن اپنے اہل خانہ کے ہمراہ وہاں سے گزر رہے تھے جن کی گاڑی دھماکے کی زد میں آ گئی اور وہ اپنے چار بچوں سمیت معمولی زخمی ہو گئے۔‘

وزیراعظم شہباز شریف نے تربت میں بس پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔‘

وزیراعظم آفس سے جاری کیے گئے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت اور سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف سرگرم عمل اور دہشت گردی کو پاکستان سے  ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے بھی ایک بیان میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے والے انسان کہلانے کے لائق نہیں۔‘

علیحدگی پسند  کالعدم گروپ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

بی ایل اے اکثر سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی رہتی ہے اور حالیہ مہینوں میں ہونے والے اکثر حملوں کی ذمہ داری اس گروپ نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

گذشتہ برس نومبر میں بھی بی ایل اے نے کوئٹہ کے مرکزی ریلوے سٹیشن پر ایک بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس میں 14 فوجیوں سمیت کم از کم 26 اموات ہوئی تھیں۔

حالیہ مہینوں میں خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

پاکستان فوج کے مطابق صرف 2024 میں مختلف جھڑپوں میں 925 عسکریت پسند مارے گئے جبکہ 383 فوجی بھی جان سے گئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان