خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں ہفتے کو ڈپٹی کمشنر اور سکیورٹی اہلکاروں کی گاڑیوں پر حملے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، جس میں دہشت گردی سمیت دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں، جب کہ قبائلی ضلعے میں اسلحے کی نمائش اور اجتماعات پر دفعہ 144 کے تحت پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
قبائلی ضلع کرم کی تحصیل لوئر کرم میں چار جنوری کو حملہ اس وقت ہوا جب پولیس کے مطابق ڈپٹی کمشنر سمیت ایف سی گاڑیوں میں سوار ٹل میں موجود امدادی سامان کے کانوائے میں گاڑیوں کے انتظامات دیکھنے جار رہے تھے۔
اس حملے میں ڈپٹی کمشنر (لوئر کرم) جاوید اللہ محسود سمیت سات افراد زخمی ہو گئے تھے۔
دوسری جانب ضلع کرم میں امن و امان، ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود پر حملے اور اجناس پر مشتمل گاڑیوں کے قافلے کو روکنے کے واقعے پر اتوار کو کوہاٹ میں اعلیٰ انتظامیہ کی نشست ہوئی جس میں متعدد فیصلے لیے گئے ہیں۔
کوہاٹ میں ہونے والی اس ملاقات میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ، آئی جی اور چیف سیکریٹری سمیت دیگر اعلیٰ عہدیداران شریک ہوئے۔
اس حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ اس ملاقات میں فیصلہ لیا گیا ہے کہ ’اگر چار جنوری کے واقع میں ملوث افراد کو حکومت کے حوالے نہ کیا گیا تو وقوعہ کے مقام پر سخت کارروائی کی جائے گی۔‘
خیبر پختونخوا حکومت کے ایک اعلی سطح اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ امن معاہدے پر دستخط کرنے والوں کو ڈپٹی کمشنر پر حملے کے ملزمان کو حوالہ کرنے کا بتا دیا ہے اور عدم تعاون پر علاقے میں کلیئرنس آپریشن بھی کیا جا سکتا ہے۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس سے جاری اجلاس کے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ چار جنوری کو کرم میں ڈپٹی کمشنر پر حملے کے ملزمان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم نے امن معاہدے (جو بدھ کو کرم فریقین کے مابین ہوا تھا) کے تحت معاہدے پر دستخط کرنے والوں کو چار جنوری کو ڈپٹی کمشنر پر حملے کے مجرمان کی حوالگی کا بتایا ہے۔‘
اعلامیے کے مطابق ’اگر حوالگی میں مزید خلاف ورزی یا عدم تعاوم کیا گیا، تو علاقے میں کلیئرنس آپریشن کے لیے علاقے سے لوگوں کی عارضی نقل مکانی ہو سکتی ہے۔‘
اسی طرح اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ ’اگر ملزمان کو حوالے نہیں کیا گیا تو علاقے کے لوگوں کی امداد اور معاوضہ روک دیا جائے گا۔‘
’ضلع میں دفعہ 144 نافذ ہے اور قافلوں کی نقل و حرکت کے دوران اب کرفیو نافذ ہوگا جبکہ اسلحہ لے کے جانے والوں کو دہشت گرد تصور کیا جائے گا۔‘
اعلامیے کے مطابق، ’وہ سرکاری ملازمین جو فرقہ ورانہ انتشار کی پشت پناہی کر رہے ہیں، کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔‘
ڈی سی کرم پر حملے کا مقدمہ
واقعے کا مقدمہ اتوار کو درج کیا گیا، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے۔ مقدمے میں پانچ ملزموں کو ناموں کے ساتھ نامزد کیا گیا ہے، جب کہ ان کے علاوہ دیگر 25 سے 30 نامعلوم افراد بھی شامل کیے گئے ہیں۔
ضلع کرم میں امن عامہ کی ناقص صورت حال کی وجہ سے محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا نے ضلع میں دفعہ 144 نافذ کر دیا ہے۔
محکمہ داخلہ کی جانب جاری ہونے والے ایک مراسلے کے مطابق ضلع کرم میں سرکاری اہلکاروں اور شہریوں پر حملے کے بعد کچھ عناصر حالات کا فائدہ اٹھا کر حالات کو مزید خراب کر سکتے ہیں۔
اسی وجہ سے مراسلے کے مطابق ’ضلعے میں اسلحے کی نمائش اور پانچ افراد سے زیادہ کے اکھٹا ہونے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، جو دو ماہ تک جاری رہے گی۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا محمد عابد مجید کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق اشفاق خان قائم مقام ڈپٹی کمشنر تعینات کیا گیا ہے۔
واقعے کی تفصیلات
ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ ’جب سرکاری گاڑیاں انتظارگاہ بگن پہنچنیں تو مذکورہ ملزمان نے با ارادہ قتل ڈپٹی کمشنر سمیت سرکاری گاڑیوں پر فائرنگ شروع کی۔
’حملے میں ڈپٹی کمشنر سمیت پولیس اور ایف سی اہلکار زخمی ہوئے۔‘
مقدمے میں انستداد دہشت گردی کی دفعہ 149 اور تعزیرات پاکستان کی دفعات 427، 353، 324 اور 148 شامل کیے گئے ہیں۔