انڈیا کے ایوان زیریں (لوک سبھا) میں بدھ کو اس وقت سکیورٹی سقم دیکھا گیا جب دو نامعلوم افراد نے ارکان پارلیمان کے چیمبرز میں داخل کر سموک بم پھینک دیے۔
واضح طور سکیورٹی میں سقم کا یہ واقعہ انڈین پارلیمنٹ پر’دہشت گردانہ‘ حملے کے 22 سال مکمل پر پیش آیا۔ 2001 میں ہونے والے اس حملے میں سکیورٹی افسران اور پانچ حملہ آوروں سمیت ایک درجن افراد مارے گئے تھے۔
دو افراد مہمانوں کی گیلری سے وقفے کے دوران ایوان میں چھلانگ لگا کر داخل ہوئے جہاں ارکان پارلیمان بیٹھے تھے۔ ان افراد کی جانب سے کھولے گئے سموک کنستر سے یہ جگہ زرد دھوئیں سے بھر گئی۔
وزیر اعظم نریندر مودی واقعے کے وقت پارلیمنٹ میں موجود نہیں تھے۔
Unbelievable images from inside #Parliament- clouds of smoke as two men jump onto the MPs floor - how did they manage entry with these canisters ? That too on the anniversary of #ParliamentAttack2001 #SecurityBreach #LokSabha #ParliamentAttack https://t.co/qV7lLrl5EE
— barkha dutt (@BDUTT) December 13, 2023
کارروائی کی براہ راست ٹیلی ویژن فوٹیج میں قانون سازوں کو اس واقعے سے دنگ دیکھا جا سکتا ہے جس کے بعد انہیں ایک میز سے دوسری میز پر چڑھنے والے مشکوک افراد کو پکڑنے کی کوشش کرتے دکھایا گیا۔
واقعے کے بعد دونوں ایوانوں کی کارروائی کچھ دیر بعد ملتوی کر دی گئی۔
پولیس نے بتایا کہ سکیورٹی کی خلاف ورزی کے بعد دو مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
مزید دو افراد جن میں مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے انمول نامی ایک شخص اور ہریانہ سے تعلق رکھنے والی نیلم نامی ایک خاتون کو پارلیمنٹ کمپلیکس کے باہر احتجاج کرنے اور سموک بم کھولنے پر حراست میں لیا گیا۔
پولیس نے کہا کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا دونوں واقعات آپس میں جڑے ہوئے ہیں یا نہیں۔
ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کے سپیکر اوم برلا نے کہا: ’ان دونوں مشکوک افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان کے پاس موجود ’سامان‘ بھی ضبط کر لیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے باہر سے بھی دو لوگوں کو پولیس نے گرفتار کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ واقعہ کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور دہلی پولیس کو اس حوالے سے ہدایات دے دی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ابتدائی تحقیقات میں یہ پتہ چلا ہے کہ یہ صرف دھواں تھا اور دھوئیں کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ گرجیت سنگھ اوجلا، جنہوں نے گھسنے والے دونوں افراد کو قابو میں کیا تھا، نے کہا کہ انہوں نے وقفے کے آخری لمحات میں ہنگامہ آرائی کی آواز سنی۔
ان کے بقول: ’اس کے ہاتھ میں کچھ تھا جس سے پیلے رنگ کا دھواں نکل رہا تھا۔ میں نے اسے چھین لیا اور اسے باہر پھینکنا جاری رکھا۔ یہ سکیورٹی میں ایک بڑا سقم ہے۔‘
بی جے پی سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان راجیندر اگروال، جو سپیکر کی جگہ ایوان کی صدارت کر رہے تھے، نے صحافیوں کو بتایا: ’یقینی طور پر یہ ایک سقم ہے۔ جب پہلا شخص نیچے آیا تو ہم نے سوچا کہ شاید وہ گر گیا ہے لیکن جب دوسرا شخص نیچے آنے لگا تو ہم سب محتاط ہو گئے۔‘
ان کے بقول: ’اس شخص نے اپنے جوتے کھولنے کی کوشش کی اور کچھ نکالا جس کے بعد دھواں نکلنے لگا۔ ان افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اس کا فیصلہ سپیکر اور ذمہ دار لوگ کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اور رکن پارلیمان کارتی چدمبرم نے پارلیمنٹ کے باہر نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’اس دن انڈیا کی پارلیمنٹ پر دوبارہ حملہ کیا گیا ہے۔‘
لوک سبھا میں ممبران نے کہا کہ مشتبہ افراد نے ’تانا شاہی نہیں چلے گی‘ کے نعرے لگائے تھے۔
13 دسمبر 2001 کو بھاری ہتھیاروں سے لیس پانچ دہشت گردوں نے پارلیمنٹ کمپلیکس کی سکیورٹی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اندھا دھند فائرنگ کر کے سکیورٹی اہلکاروں اور اراکین پارلیمنٹ کو نشانہ بنایا۔ یہ معاملہ گھنٹوں تک جاری رہا اور اس کے نتیجے میں آٹھ سکیورٹی اہلکاروں سمیت نو افراد اور پانچ دہشت گرد مارے گئے۔
اس سے پہلے دن میں صدر دروپدی مرمو، وزیرِ اعظم مودی اور کانگریس پارٹی سمیت دیگر رہنماؤں نے حملے کے متاثرین کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔
برلا نے پوچھا، ’آج ہی ہم نے اپنے بہادروں کو خراج عقیدت پیش کیا تھا جنہوں نے پارلیمنٹ حملے کے دوران اپنی جانیں قربان کیں اور آج خود یہاں ایوان کے اندر حملہ ہوا۔ کیا یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم اعلیٰ سطح کی حفاظت کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے؟‘
انہوں نے دونوں حملہ آوروں کو پکڑنے میں ارکان پارلیمنٹ کی بےخوفی کی بھی تعریف کی۔
یہ واقعہ اس وقت بھی سامنے آیا ہے جب نریندر مودی نے نو تعمیر شدہ پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح کیا تھا، یہ منصوبہ نوآبادیاتی دور کی عمارت سے ایک جدید کمپلیکس میں منتقل کرنے کے لیے 9.7 کروڑ پاؤنڈ کی لاگت آئی ہے۔
تکونی شکل کا پارلیمانی کمپلیکس 1927 میں برطانوی معمار ایڈون لوٹینز اور ہربرٹ بیکر کی تعمیر کردہ پرانی، دائروی شکل کی تاریخی عمارت کے بالکل سامنے بنایا گیا ہے۔
لیکن اس اقدام پر مخالف سیاست دانوں، معماروں اور ورثے کے ماہرین کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے، جن میں سے بہت سے لوگوں نے اس مہنگے منصوبے کو ماحولیاتی لحاظ سے غیر ذمہ دارانہ اور ثقافتی ورثے کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
© The Independent