پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) نے بدھ کو متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی حوالگی کے لیے باضابطہ کارروائی کا آغاز کر دیا۔
ملک ریاض پر القادر ٹرسٹ کیس میں مبینہ بدعنوانی کا الزام ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بھی عدالت میں اس کیس کا سامنا کر رہے ہیں۔
نیب کے ترجمان نے بدھ کو عرب نیوز کو بتایا: ’ہم نے ملک ریاض کی حوالگی کے لیے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو خط لکھا ہے۔ نیب کی منظوری کے بعد اب ایف آئی اے اس کیس کو بین الاقوامی سطح پر، بشمول انٹرپول کے ذریعے آگے بڑھائے گی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا نیب ملک ریاض کی حوالگی کا مطالبہ القادر ٹرسٹ کیس کے سلسلے میں کر رہا ہے، جس میں وہ عمران خان اور ان کی اہلیہ کے ساتھ شریک ملزم ہیں، تو ترجمان نے اس کی تصدیق کی۔
گذشتہ ہفتے وزیر دفاع خواجہ آصف نے تصدیق کی تھی کہ پاکستان متحدہ عرب امارات کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کے معاہدے کے تحت ملک ریاض کو واپس لانے کے لیے اقدامات کرے گا۔
رواں ماہ کے آغاز میں نیب نے عوام کو خبردار کیا تھا کہ وہ دبئی میں ملک ریاض کے نئے لگژری اپارٹمنٹ منصوبے میں سرمایہ کاری نہ کریں۔
نیب نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’اگر عوام اس منصوبے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، تو یہ منی لانڈرنگ کے زمرے میں آئے گا اور اس کے نتیجے میں وہ مجرمانہ اور قانونی کارروائی کا سامنا کر سکتے ہیں۔‘
ملک ریاض نے نیب کے اس اقدام پر ایکس پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا: ’جعلی مقدمات، بلیک میلنگ اور افسران کی لالچ نے مجھے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا کیونکہ میں سیاسی مہرہ بننے کے لیے تیار نہیں تھا۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’یہ میرا فیصلہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ چاہے جتنا بھی دباؤ ڈالا جائے، ملک ریاض گواہی نہیں دے گا! پاکستان میں کاروبار کرنا آسان نہیں، ہر قدم پر رکاوٹوں کے باوجود، 40 سال کی محنت اور اللہ کے فضل سے پہلا عالمی معیار کا ہاؤسنگ پروجیکٹ پروان چڑھا۔‘
ملک ریاض پاکستان کے امیر ترین اور بااثر کاروباری شخصیات میں شمار ہوتے ہیں اور ملک کی سب سے بڑی نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں سے ایک کے مالک بھی ہیں۔
وہ بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کے چیئرمین کے طور پر مشہور ہیں، جو خود کو ایشیا کا سب سے بڑا نجی ریئل اسٹیٹ ڈویلپر قرار دیتا ہے۔
ملک ریاض اس وقت دبئی میں مقیم ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رواں ماہ کے آغاز میں ایک مقامی عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو 14 سال اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو اسی مقدمے میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔
اس کیس میں ان پر الزام تھا کہ انہوں نے 2018 سے 2022 کے دوران اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران القادر ٹرسٹ کے ذریعے ملک ریاض سے زمین بطور رشوت حاصل کی جس کے بدلے انہیں غیر قانونی فائدے دیے گئے۔
تاہم عمران خان کا مؤقف ہے کہ وہ اور ان کی اہلیہ اس کے صرف ٹرسٹی تھے اور انہیں اس زمین کے لین دین سے کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہوا۔
ملک ریاض نے بھی اس مقدمے میں کسی بھی قسم کی بدعنوانی سے انکار کیا ہے۔
القادر ٹرسٹ کیس
2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے اعلان کیا تھا کہ ملک ریاض نے 190 ملین پاؤنڈ حکومت پاکستان کو واپس کرنے پر اتفاق کیا تھا جو برطانیہ میں منجمد کیے گئے تھے۔
یہ تصفیہ اس تحقیقات کے نتیجے میں ہوا تھا کہ یہ رقم غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی تھی۔
این سی اے نے ایک معاہدے کے تحت ملک ریاض سے 50 ملین پاؤنڈ مالیت کی جائیداد ون ہائیڈ پارک پلیس اور برطانوی بینک اکاؤنٹس میں موجود منجمد نقدی حوالے کروائی تھی۔
اس سے قبل این سی اے نے 140 ملین پاؤنڈ کے نو مختلف اکاؤنٹس یہ کہتے ہوئے کہ یہ ممکنہ طور پر غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی رقم ہے، منجمد کیے تھے۔
ایجنسی نے کہا تھا کہ یہ اثاثے پاکستان کی حکومت کو منتقل کیے جائیں گے اور ملک ریاض کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ ’ایک سول معاملہ تھا اور اس کا مطلب کسی جرم کا اعتراف نہیں ہے۔‘
پاکستان میں ملک ریاض اور عمران خان کے خلاف موجودہ کیس میں الزام یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ یہ 190 ملین پاؤنڈ کی رقم پاکستان کے قومی خزانے میں جمع کرائی جاتی عمران خان کی حکومت نے یہ رقم ملک ریاض پر غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی سرکاری زمینوں پر عائد عدالتی جرمانے کی ادائیگی کے لیے استعمال کی، جو کراچی میں ڈیولپمنٹ کے لیے ارزاں نرخوں پر حاصل کی گئی تھیں۔