پاکستان کے ایک مشہور یوٹیوبر رجب بٹ، جنہیں شادی کے دن تحفے میں شیر کا بچہ دیا گیا تھا، جیل جانے سے اس وعدے کے بعد بچ گئے کہ وہ اپنے چینل پر ایک سال تک جانوروں کے حقوق پر مبنی ویڈیوز اپ لوڈ کریں گے جبکہ شیر کے بچے کو لاہور سفاری منتقل کر دیا گیا ہے۔
رجب بٹ پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول یوٹیوبرز میں سے ایک ہیں اور گذشتہ برس دسمبر کے آخر میں ان کی ہفتہ بھر جاری رہنے والی شادی کی تقریبات خبروں میں نمایاں رہیں۔
جب لاہور کے ایک بڑے شادی ہال میں ہزاروں مہمانوں کے سامنے سونے کی زنجیروں میں بند ایک ننھا شیر انہیں تحفے میں دیا گیا تو اس کی تصاویر اور ویڈیوز تیزی سے وائرل ہوئیں۔
رجب بٹ نے اس تقریب کی ایک ویڈیو، جسے ایک کروڑ ویوز حاصل ہوئے، کے عنوان میں لکھا تھا: ‘تحفوں کی بارش ہو رہی ہے۔‘
تاہم اگلی صبح پولیس نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور شیر کے بچے کو ضبط کرکے رجب بٹ کو ایک رات کے لیے حراست میں رکھا۔
جنگلی حیات کے تحفظ کی کارروائی
پنجاب کے محکمہ جنگلی حیات کے انسپکٹر فیصل مشتاق کے مطابق پولیس کو اس شیر کے بچے کے بارے میں سوشل میڈیا کے ذریعے اطلاع ملی تھی۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم نے رجب بٹ کے گھر چھاپہ مارا اور شیر کا بچہ ان کے گیراج میں گھومتا پایا۔ یہ شدید سردی کے باعث بری حالت میں تھا۔‘
گذشتہ ہفتے رجب بٹ نے غیر قانونی طور پر جنگلی جانور رکھنے کے جرم کا اعتراف کیا، لیکن جج نے انہیں دو سال قید اور ممکنہ جرمانے کی بجائے ایک منفرد سزا تجویز کی۔
عدالتی حکم کے مطابق رجب بٹ کو ہر ماہ جانوروں کے حقوق پر مبنی ایک پانچ منٹ کی ویڈیو اپ لوڈ کرنی ہوگی۔
رجب بٹ نے عدالت میں تسلیم کیا کہ انہوں نے ایک غلط مثال قائم کی اور شیر کا تحفہ قبول کر کے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان میں جنگلی جانوروں کی غیر قانونی خرید و فروخت
رجب بٹ، جو کہ یوٹیوب کے مطابق پاکستان کے سب سے زیادہ معاوضہ حاصل کرنے والے یوٹیوبرز میں سے ایک ہیں، عام طور پر اپنی ویڈیوز میں خاندانی زندگی، جھگڑوں اور نئی گاڑیوں کی خریداری جیسے موضوعات پر بات کرتے ہیں۔
پنجاب کے جنگلی حیات کے تجربہ کار افسر تنویر جنجوعہ کے مطابق یہ شیر کا بچہ سات سے آٹھ لاکھ روپے میں خریدا گیا ہوگا۔
تنویر جنجوعہ نے اے ایف پی کو بتایا: ’یہ اخلاقی اور قانونی دونوں لحاظ سے غلط ہے کہ ایک چھوٹے شیر کے بچے کو اس کی ماں سے جدا کیا جائے، خاص طور پر جب وہ اب بھی دودھ پی رہا ہو۔‘
شیر کے فرار کا واقعہ
رجب بٹ کی گرفتاری کے ایک ہفتے بعد لاہور کے ایک گنجان آباد علاقے میں ایک بالغ شیر پنجرا توڑ کر فرار ہو گیا اور قریبی گھروں کے رہائشی خوفزدہ ہو کر چھتوں پر چڑھ گئے۔
بعد میں ایک سکیورٹی گارڈ نے شیر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جس پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل آیا اور رہائشی علاقوں میں جنگلی جانور رکھنے کے خطرات پر بحث چھڑ گئی۔
پاکستان میں امیر طبقے کے لوگ شیر، چیتے اور دیگر جنگلی جانوروں کو طاقت اور دولت کی علامت کے طور پر رکھتے ہیں۔
جبکہ گذشتہ سال حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سیاسی ریلیوں میں پارٹی کے نشان ’شیر‘ کو حقیقی شیر کے طور پر لانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
نئی سخت قانون سازی
پنجاب حکومت ایک نیا قانون بنا رہی ہے جس کے تحت رہائشی علاقوں میں جنگلی جانور رکھنے پر پابندی ہوگی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نئے قوانین کے مطابق بریڈرز (جانور پالنے والے) کو لائسنس لینا ہوگا اور کم از کم 10 ایکڑ کی زمین رکھنی ہوگی، جو جنگلی حیات کے حکام کی منظوری کے بعد ہی استعمال کی جا سکے گی۔
شیر کا بچہ اب کہاں ہے؟
رجب بٹ کو تحفے میں دیا گیا ننھا شیر، جس کا کوئی نام نہیں رکھا گیا، اب لاہور کے سفاری چڑیا گھر میں کھلی جگہ پر رکھا گیا ہے جہاں ایک ماہر نگران اس کا خیال رکھ رہا ہے۔
تنویر جنجوعہ، جو کہ سفاری چڑیا گھر کے نائب ڈائریکٹر بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے 33 سالہ کیریئر میں سینکڑوں چھاپے مار کر غیر قانونی طور پر رکھے گئے شیر، چیتے اور دیگر جنگلی جانوروں کو ضبط کیا ہے۔
انہوں نے کہا: ’یہ یوٹیوبرز جانوروں کو صرف ویوز اور کلکس کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ کیا پیغام دے رہے ہیں؟ جانوروں پر ظلم کر کے مشہوری حاصل کرنا؟ یہ جنگلی جانور کبھی بھی آپ کے پالتو جانور نہیں ہو سکتے۔ بچپن کے اپنے ابتدائی چند مہینوں تک وہ کچھ نہیں کہیں گے لیکن اس کے بعد وہ جارحانہ ہو جائیں گے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جانوروں کے ساتھ سلوک مزید خراب ہوا ہے لیکن قوانین بہتر ہو رہے ہیں۔
تنویر جنجوعہ کے بقول: ’اب جنگلی حیات کے حکام کے پاس مخصوص یونیفارم، اسلحہ اور اپنے علیحدہ عدالتیں ہوں گی۔ موجودہ عدالتیں بھی جانوروں کے ساتھ ظلم کے خلاف زیادہ سخت فیصلے دیتی ہیں۔‘