شام: بشارالاسد دور کی اجتماعی قبروں سے جلی ہوئی باقیات برآمد

حکام کے مطابق برآمد شدہ باقیات مرد، خواتین اور بچوں کی ہیں، جن کے جسموں پر گولیوں کے زخم اور جلائے جانے کے نشانات موجود ہیں۔

شامی شہری دفاع کا ایک کارکن 28 جنوری 2025 کو دارالحکومت دمشق کے مضافات میں واقع علاقے سبینہ میں دو الگ الگ تہہ خانوں میں انسانی باقیات کا معائنہ کرتے ہوئے (اے پی)

شام میں شہری دفاعی کارکنوں نے منگل کو دمشق کے دیہی علاقے میں دو مختلف تہہ خانوں سے معزول صدر بشار الاسد حکومت کے کم از کم 26 متاثرین کی جلی ہوئی باقیات برآمد کی ہیں۔

یہ دریافت دسمبر 2024 میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک سامنے آنے والی اجتماعی قبروں میں ایک اور اضافہ ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق برآمد شدہ باقیات مرد، خواتین اور بچوں کی ہیں، جن کے جسموں پر گولیوں کے زخم اور جلائے جانے کے نشانات موجود ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ’وائٹ ہیلمٹس‘ کے رضاکاروں نے دمشق کے جنوب مغربی علاقے سبینہ میں دو عمارتوں کے تہہ خانوں سے ان بکھری ہوئی اور بوسیدہ ہڈیوں کو دریافت کیا تھا۔

حفاظتی لباس (ہیزمیٹ سوٹ) میں ملبوس کارکنوں نے احتیاط سے ہر لاش کی تفصیلات درج کیں اور انہیں کوڈنگ کے بعد تھیلوں میں بند کر کے ٹرکوں کے ذریعے منتقل کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تنظیم کے ایک رکن عبدالرحمٰن معاواس نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ گذشتہ سال 28 نومبر سے اب تک وائٹ ہیلمٹس نے 780 سے زائد لاشیں دریافت کی ہیں، جن میں سے زیادہ تر کی شناخت ممکن نہیں ہو سکی۔

ان کے بقول: ’یہ لاشیں زیادہ تر ان اجتماعی قبروں میں دفن تھیں جو مقامی افراد نے دریافت کیں یا جانوروں نے کھود نکالی تھیں۔‘

ان لاشوں کو فرانزک ماہرین کے حوالے کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی شناخت، موت کا وقت اور وجوہات معلوم کی جا سکیں اور ممکنہ طور پر انہیں ان کے خاندانوں سے ملایا جا سکے۔

عبدالرحمٰن نے وضاحت کی کہ ’یہ ایک طویل اور صبر آزما عمل ہے، جو برسوں پر محیط ہو سکتا ہے۔‘

ان عمارتوں میں سے ایک کے رہائشی محمد الحراف نے بتایا کہ 2016 میں جب ان کا خاندان سبینہ واپس آیا تو لاشوں کی بدبو ناقابل برداشت تھی۔

وہ 2011 میں شروع ہونے والی شامی خانہ جنگی کے دوران اس علاقے سے فرار ہو گئے تھے۔

محمد الحراف نے کہا کہ جب انہوں نے تہہ خانے میں لاشیں دیکھیں تو انہوں نے حکومت کے خوف سے کسی کو اس کی اطلاع نہیں دی۔

ان کے بقول: ’ہم حکومت کو کچھ نہیں بتا سکتے تھے کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ یہ سب اسد حکومت کا کیا دھرا ہے۔‘

شام پر دو دہائیوں تک حکمرانی کرنے والی اسد حکومت نے اپنے ہی عوام کے خلاف فضائی حملے، تشدد، پھانسیوں اور اجتماعی قید جیسے وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کیے تاکہ ملک پر کنٹرول برقرار رکھا جا سکے اور مخالف گروپوں کو دبایا جا سکے۔

عمار السلمو، جو کہ دوسرے تہہ خانے کی کھدائی میں شامل تھے، نے کہا کہ اس حوالے سے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ ان متاثرین کی شناخت ہو سکے۔

عمار السلمو نے بتایا: ’ہمیں مقامی افراد کی گواہی درکار ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ 2013 میں لڑائی کے دوران کون لوگ یہاں پیچھے رہ گئے تھے۔‘

محمد شبت، جو اس دوسری عمارت میں رہائش پذیر تھے جہاں سے لاشیں ملیں، نے کہا کہ انہوں نے 2012 میں یہ علاقہ چھوڑا اور وہ 2020 میں واپس آئے۔ انہوں نے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر حکام سے مطالبہ کیا کہ لاشوں کو ہٹایا جائے، مگر کسی نے تعاون نہیں کیا۔

ان کے مطابق یہ متاثرین وہ عام شہری ہو سکتے ہیں جو 2013 میں اسد حکومت کی جانب سے لگائی گئی ناکہ بندی کے دوران جان بچانے کے لیے قریبی علاقے الاسالی سے یہاں پناہ لینے آئے تھے۔

محمد شبت نے بتایا کہ ’اسد حکومت کے اہلکار لوگوں کو تہہ خانوں میں پھنسا کر انہیں ٹائر جلا کر مار ڈالتے تھے اور پھر ان کی لاشیں وہیں چھوڑ دیتے تھے۔ یہاں ایسے کئی تہہ خانے ہیں جو ہڈیوں سے بھرے پڑے ہیں۔‘

پیر کے روز جاری کردہ اقوام متحدہ کی ’سیریا کمیشن آف انکوائری‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، اجتماعی قبریں ان ہزاروں لاپتہ قیدیوں کی حقیقت جاننے میں مدد دے سکتی ہیں جو اسد حکومت کے دوران غائب کر دیے گئے تھے۔

یہ رپورٹ 14  سالوں پر مشتمل تحقیقات اور 2,000  سے زائد گواہوں کی شہادتوں پر مبنی ہے، جن میں 550 سے زائد ایسے افراد شامل ہیں، جو اسد حکومت کے زیرانتظام جیلوں میں تشدد سہہ چکے تھے۔

رپورٹ میں وحشیانہ تشدد کے ان طریقوں کی تفصیل دی گئی ہے جو شامی قیدیوں کو جھیلنے پڑے، جن میں شدید مارپیٹ، بجلی کے جھٹکے، جلانا، ناخن اکھاڑنا، دانت توڑنا، جنسی تشدد (جس میں اعضا کو کاٹ پھینکنا بھی شامل ہے)، لمبے عرصے تک غیر آرام دہ حالت میں باندھنا، طبی سہولیات سے محرومی اور ذہنی اذیت دینا شامل تھا۔

آٹھ دسمبر 2024 کو بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد سینکڑوں خاندان جیلوں اور مردہ خانوں کے چکر لگا رہے ہیں تاکہ اپنے پیاروں کا سراغ لگا سکیں۔

کچھ قیدیوں کو سالوں کی قید کے بعد رہا کیا گیا لیکن ہزاروں لوگ اب بھی لاپتہ ہیں، جن کا کوئی سراغ نہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق اجتماعی قبروں کی فرانزک جانچ اور شواہد ان غمزدہ خاندانوں کو سچ جاننے کا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا