پاکستان میں ہاکی کا عروج و زوال

ملائشیا میں جاری جونیئر ہاکی ورلڈ کپ میں پاکستان کی جونیئر ٹیم جسے جونیئر کہنا انتہائی نامناسب ہو گا، مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آٹھویں نمبر پر آئی ہے۔

انڈیا کے ہاکی پلیئر کارتھی سیلوام پاکستان کے محمد خان سے بال حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایشین چیمپیئنز ٹرافی 2023 ہاکی ٹورنامنٹ کا یہ میچ نو اگست 2023 کو کھیلا گیا تھا (اے ایف پی / ساتش بابو)

پاکستان ہاکی کے عروج سے زوال بلکہ پستی تک کے سفر پر بات کرنے سے پہلے میں دنیائے ہاکی کے عظیم کھلاڑی پال لٹجنز کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو گذشتہ دنوں 76 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

پال لٹجنز پینلٹی کارنر پر گول کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اور ان کے کیے گئے 268 گول ایک طویل عرصے تک انٹرنیشنل ہاکی میں ورلڈ ریکارڈ کے طور پر رہے، اس ریکارڈ کو پاکستان کے سہیل عباس نے توڑا تھا۔

میں نے پال لٹجنز کو کراچی میں 1981 کی چیمپئنز ٹرافی میں اپنی آنکھوں کے سامنے کھیلتے دیکھا تھا۔ یہ چیمپئنز ٹرافی ہالینڈ نے جیتی تھی اور فاتح ٹیم کے کپتان پال لٹجنز تھے اور پھر 2018 میں اسی ہاکی کلب آف پاکستان سٹیڈیم میں مجھے 2018 میں پال لٹجنز سے ملنے اور ان کے انٹرویو کا موقع ملا تھا جس میں انہوں نے سہیل عباس اور اپنے دیرینہ دوست اصلاح الدین کے بارے میں دلچسپ گفتگو کی تھی۔ اس مختصر ملاقات کی یادیں آج بھی ذہن میں تازہ ہیں۔

اور اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ملائشیا میں جاری جونیئر ہاکی ورلڈ کپ میں پاکستان کی جونیئر ٹیم جسے جونیئر کہنا انتہائی نامناسب ہو گا، مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آٹھویں نمبر پر آئی ہے۔

میں اس ٹیم کو اس لیے جونیئر نہیں کہہ رہا کیونکہ اس میں دو تین نہیں بلکہ نو کھلاڑی وہ تھے جو پہلے سے پاکستان کی قومی سینیئر ہاکی ٹیم کی طرف سے انٹرنیشنل ہاکی کھیل چکے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ٹیم کو کوارٹرفائنل سے آگے نہ لے جا سکے جہاں اسے سپین کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

پانچویں پوزیشن کے میچ میں اسے آسٹریلیا نے شکست دی اور آخر میں ساتویں پوزیشن کے میچ میں ارجنٹائن نے ہرا کر اسے آٹھویں پوزیشن پر دھکیل دیا۔

مجھے سب سے زیادہ حیرت ٹیم کے ہیڈ کوچ رولینٹ آلٹمینز کے اس بیان پر ہوئی ہے جس میں وہ اپنی ٹیم کی تعریف کرتے نہیں تھک رہے ہیں حالانکہ انہیں بھی پتہ ہے کہ یہ جونیئر نہیں بلکہ ایک لحاظ سے سینیئر ٹیم تھی جو جونیئر ورلڈ کپ کھیلنے گئی تھی۔ صرف اور صرف جونیئر ورلڈ ٹائٹل جیتنے کی خواہش میں باصلاحیت جونیئر کھلاڑیوں کو نظرانداز کر کے سینیئر کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا لیکن اس کے باوجود یہ ٹیم آٹھویں پوزیشن لے کر وطن واپس آ رہی ہے۔

رولینٹ آلٹمینز اس سے قبل بھی پاکستان کی سینیئر ٹیم کے ہیڈ کوچ رہ چکے ہیں لیکن 2018 میں ان کی موجودگی میں پاکستان کی ہاکی ٹیم چیمپئنز ٹرافی میں آخری نمبر پر آئی تھی جبکہ ایشین گیمز میں بھی اس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی تھی جس کے بعد آلٹمینز کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

اب وہ دوبارہ پاکستان ہاکی فیڈریشن سے وابستہ ہوئے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ اپنے ہم وطن پیش رو سیگفرائٹ ایکمین کی طرح کہیں وہ بھی معاوضہ نہ ملنے کی شکایت کرکے شہ سرخیوں میں جگہ نہ بنا لیں کیونکہ پاکستان کی ہاکی کا ایک بڑا مسئلہ کھلاڑیوں اور ٹیم آفیشلز کو وقت پر ڈیلی الاؤنسز نہ ملنا بھی رہا ہے۔

یہ تو میدان میں ہونے والی کارکردگی کا ذکر ہے اب اگر ہم میدان سے باہر پاکستان ہاکی فیڈریشن کے معاملات پر نظر ڈالیں تو صورت حال بڑی خوفناک نظر آتی ہے۔ جس طرح عمران خان کے مقابلے پر سیاسی جماعتیں خاص کر پیپلز پارٹی اور نون لیگ اپنے مفادات کے بچاؤ کے لیے ایک ہو گئی تھیں اسی طرح پاکستان ہاکی فیڈریشن کے کلیدی عہدے یعنی سیکریٹری کے عہدے پر رہ کر پھر باہر کیے جانے والے سابق اولمپینز ایک ہو گئے ہیں۔

یہ وہی اولمپیئنز ہیں جنہیں ایک صاحب نے وقفے وقفے سے فیڈریشن سے باہر کیا لیکن اب وہی صاحب انہیں دوبارہ فیڈریشن میں لے آئے ہیں اور وہ صاحب کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بریگیڈیئر ریٹائرڈ خالد سجاد کھوکھر ہیں جنہوں نے آصف باجوہ اور شہباز احمد کو سیکریٹری کے عہدے سے فارغ کیا تھا لیکن اب یہی آصف باجوہ چیف سلیکٹر اور شہباز احمد پاکستانی ٹیم کے منیجر بن کر دوبارہ خالد کھوکھر کی آنکھ کا تارہ بن گئے ہیں۔

جہاں تک رانا مجاہد کا تعلق ہے تو 2015 میں بریگیڈئر خالد کھوکھر کے صدر بننے کے بعد انہیں بھی تین سال سیکریٹری کی مزید مدت مل گئی تھی لیکن انہوں نے اس وقت  استعفیٰ دے دیا تھا جب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے پی ایچ ایف کے صدر اختر رسول کو فارغ کر کے ایک تحقیقاتی کمیٹی ٹیم کی خراب کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے بنائی تھی کیونکہ پاکستانی ٹیم ورلڈ ہاکی لیگ میں ہارنے کے سبب ریو ڈی جنیرو اولمپکس کے لیے کوالیفائی نہیں کر پائی تھی۔

اس کے علاوہ وہ ورلڈ کپ میں بھی کوالیفائی کرنے سے محروم رہی تھی لہذا رانا مجاہد نے بھی استعفیٰ دینے میں بہتری سمجھی تھی۔

خالد کھوکھر رانا مجاہد کی جگہ شہباز احمد کو سیکریٹری کے طور پر لے آئے تھے لیکن ان دونوں کے تعلقات اس وقت بھی ناخوشگوار رہے تھے۔ ایک وقت ایسا آیا جب خالد کھوکھر نے یہ دعویٰ کیا کہ شہباز احمد نے  استعفیٰ دے دیا ہے جبکہ دوسری جانب شہباز احمد کا دعویٰ تھا کہ انہیں زبردستی اس عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔

یہاں یہ بات بھی یاد دلانی بہت ضروری ہے کہ یہ وہی خالد سجاد کھوکھر ہیں جنہوں نے 16 اگست 2022 کو ایک پریس کانفرنس میں ٹی وی چینلز کے کیمروں کے سامنے دعویٰ کیا تھا کہ شہباز احمد کے خلاف انکوائری مکمل ہوکر ان کے پاس موجود ہے اور اگر وہ اسے ایف آئی اے کے پاس بھیج دیں تو کل صبح شہباز احمد کو ہتھکڑی لگ جائے۔

جہاں تک آصف باجوہ کی فیڈریشن میں انٹری کا تعلق ہے تو وہ اس سے قبل دو بار سیکریٹری رہ چکے ہیں۔ ان کے دور میں پاکستانی ہاکی ٹیم نے اپنی تاریخ کی بدترین کارکردگی دکھاتے ہوئے 2010 کے ورلڈ کپ میں سب سے آخری بارہویں پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ چار سال بعد ہونے والے ورلڈ کپ میں وہ اپنی تاریخ میں پہلی بار کوالیفائی نہیں کرسکی تھی۔

یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ آصف باجوہ پاکستانی ہاکی ٹیم کے ہیڈ کوچ بھی رہ چکے ہیں اور ان کی کوچنگ میں پاکستانی ہاکی ٹیم کو 2006 کی چیمپئنز ٹرافی میں ہالینڈ کے ہاتھوں دو کے مقابلے میں نو گول کی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا تھا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ماضی کے ان بدترین نتائج کے باوجود بریگیڈئر خالد سجاد کھوکھر 2019 میں آصف باجوہ کودوبارہ فیڈریشن کے سیکریٹری کے طور پر لے آئے لیکن پھر انہیں بھی فارغ کر کے انہوں نے حیدر حسین کو سیکریٹری مقرر کیا۔

دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ خالد سجاد کھوکھر کا دعوی ہے کہ حیدر حسین نے  استعفیٰ دے دیا ہے لیکن حیدر حسین نے اس معاملے پر عدالت سے رجوع کیا ہے جس نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ وہی اس وقت فیڈریشن کے سیکریٹری ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن میں مالی بے ضابطگیوں کے معاملات کی تحقیقات ایف آئی اے کررہی ہے۔ ان تحقیقات کا تعلق 2008 سے 2022 تک کے عرصے سے ہے۔ اگر صاف شفاف تحقیقات ہوتی ہیں تو پھر کئی چہرے بے نقاب ہوں گے۔ یہ وہ چہرے ہیں جو گھوم پھر کر دوبارہ ہاکی فیڈریشن میں آتے رہے ہیں لیکن پاکستان کی ہاکی کے لیے وہ کچھ بھی نہ کرسکے البتہ ان کے نام مبینہ مالی بے ضابطگیوں کے ضمن میں ضرور لیے جارہے ہیں۔

خالد کھوکھر 2015 سے پاکستان ہاکی فیڈریشن کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں اور اپنے اثرورسوخ کی وجہ سے خود کو ہر طرح کے سوال جواب سے دور رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

اس دوران وہ ہاکی کے سب سے بڑے گڑھ یعنی پنجاب ہاکی ایسوسی ایشن کی باگ ڈور بھی اپنے بھائی کے حوالے کرچکے ہیں تاہم اب کچھ اس طرح کی اطلاعات آرہی ہیں کہ حکومت پاکستان ہاکی فیڈریشن میں تبدیلی کا فیصلہ کرچکی ہے جو جلد متوقع ہے۔

ایک وقت تھا جب پوری قوم کے دل ہاکی کے ساتھ دھڑکتے تھے لیکن ان سابق اولمپیئنز نے جو اپنے کھیل کے اعتبار سے سٹار تھے لیکن فیڈریشن میں آکر جس طرح قومی ہاکی کو تباہی سے دوچار کردیا اب کسی کو بھی ہاکی سے غیرمعمولی دلچسپی نہیں رہی بلکہ اب تو ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ پاکستان کی ہاکی اب اور کتنی پستی میں جا گرے گی؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ