افغانستان کے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے اس برس کے صدارتی انتخابات کے لیے اپنا انتخابی کمیشن میں اندراج کروایا جس سے دونوں کے درمیان 2014 کے انتخاب کی تلخیاں تازہ ہوگئی ہیں۔ امریکہ کو دونوں کے درمیان اقتدار میں شراکت کا معاہدہ کروانا پڑا تھا۔
یہ دونوں اب تک کے 14 امیدواروں میں سرفہرست ہیں جنہوں نے بیس جولائی کے انتخابات کے لیے اندراج کروایا ہے۔ یہ انتخابات ایک ایسے وقت ہو رہے ہیں جب امریکہ سترہ سالہ پرانی جنگ کے خاتمے کے لیے کوششوں میں تیزی لانے کی خاطر طالبان سے امن مذاکرات میں مصروف ہے۔
انہتر سالہ صدر اشرف غنی دوسری مرتبہ صدارت کے امیدوار بنے ہیں۔ ان کے علاوہ عبداللہ عبداللہ نے بھی اتوار کو اندارج کیا۔ سابق جنگجو سردار اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے بھی ایک روز قبل صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ آذاد تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان نامزدگیوں اور تبدیل ہوتی وفاداریوں نے افغانستان کے سیاسی منظر نامے کو ایک مرتبہ پھر افراتفری کا شکار کر دیا ہے۔
ٹی وی پر دکھائی جانے والی تقریر میں صدر غنی نے جن کے ساتھ ان کی اہلیہ اور اتحادی موجود تھے اپنی حکومت کے پانچ سالہ کارکردگی کا احاطہ کیا۔ انہوں نے طالبان کو امن مذاکرات کی غیرمشروط پیشکش بھی دوہرائی۔
ان کا کہنا تھا کہ ”میں نے امن کوششیں شروع کیں اور ہماری ٹیم ملک میں مستحکم اور پائیدار امن لاسکیں گے۔ اگر طالبان اپنے آپ کو افغان سمجھتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ آئیں اور ہم سے بات کریں۔”
2014 کے صدارتی انتخابات میں اشرف غنی کی پہلے راونڈ میں مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی پر دوسرا راونڈ کروانا پڑا تھا۔ لیکن دوسرے مرحلے کے نتائج کے اعلان کا انتظار کئے بغیر عبداللہ عبداللہ نے دھاندلی کے الزام عائد کرتے ہوئے عوامی احتجاج کا اعلان کر دیا تھا۔ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو ثالثی کرنی پڑی تاکہ متحدہ حکومت قائم کی جاسکے۔
صدر غنی کے ناقدین کہتے ہیں کہ 2014 کے صدارتی انتخابات دھاندلی کا شکار تھے۔ امریکیوں نے ان کی حکومت سازی میں مدد کی جبکہ واشنگٹن نے اپنا فوجی کردار جارحانہ جنگ سے تبدیل کرکے افغان فوج کو مشاورت تک محدود کر دیا۔ لیکن مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ پچھلے چار سالوں انہوں نے صدر غنی کو غیرحقیقی مائیکرو مینجر کے طور پر پایا جنہیں سکیورٹی بحران کا اندازہ لگانے یا دور دراز کے صوبوں کو چلانے کے لیے سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکامی ہوئی۔
صدر غنی کو ایک اور سخت مخالفت اپنے چار سال تک سابق مشیر برائے سلامتی امور محمد حنیف اتمر سے بھی ہے۔ انہوں نے بھی صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ انہوں نے اشرف غنی سے علیحدگی پالیسی امور پر اختلاف کی وجہ سے 2018 اگست میں اختیار کی تھی۔ انہوں نے اندراج کے بعد واضی کیا کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن کبھی بھی طالبان حکومت کی بحالی کا قبول کریں گے۔دوسری جانب افغان طالبان نے 2014 سے مسلسل فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اور غنی حکومت کے پاس محض دو تہائی علاقہ رہ گیا۔ خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی تنظیم کی بھی ملک کے مشرقی حصوں میں موجودگی ہے۔ افغان سکیورٹی اداروں، سرکاری اہلکاروں اور غیرملکیوں کو نشانہ بنانے والے خودکش حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
امریکہ نے 2018 میں افغان سفارت کار زلمے خلیل زاد کو طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کرنے کے لیے تعینات کیا۔ انہوں نے اب تک طالبان کے ساتھ تین ملاقاتیں کرلی ہیں لیکن ایجنڈے پر اختلاف اور طالبان کی غنی حکومت کے نمائندوں سے ملنے سے انکار نے مذاکرات میں تعطل پیدا کر دیا ہے۔
ایک مغربی سفارت کار نے رائٹرز سے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ ”غنی کو باعزت طور پر اقتدار چھوڑ کر قیام امن پر توجہ دینی چاہیے تھے۔ لیکن اس کے برعکس انہوں نے اپنے مخالف سے اتحاد بنا کر دوسری مرتبہ صدر بنے کی کوشش کی ہے۔”
ایک روز قبل وزیر داخلہ امراللہ صالح اپنے عہدے سے علیحدہ ہوئے تاکہ غنی کی ٹیم میں بطور نائب صدر کے حصہ لے سکیں۔ نسلی طور پر غنی پشتون ہیں اور انہوں نے صالح کو جسے کبھی ان کا اہم مخالف مانا جاتا ہے اپنے سیاسی مخالفین کا مقابلہ کرنے کے لیے اور تاجک ووٹر کی حمایت حاصل کرنے کے لیے تعینات کیا۔ صالح کی تاجکوں میں اچھی خاصی مقبولیت پائی جاتی ہے۔
سینئر انتخابی حکام کا جن پر 2018 کے پارلیمانی انتخابات میں صاف و شفاف انتتخابات منعقد کروانے میں ناکامی کی وجہ سے تنقید ہوئی کہنا ہے کہ وہ جولائی میں صدارتی انتخاب کروانے کی پوری کوشش کریں گے لیکن سکیورٹی حالات انہیں دو ماہ کے لیے موخر کرسکتے ہیں۔