فیصل صالح حیات کا پیپلز پارٹی سے ن لیگ تک کا سیاسی سفر

سابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے جھنگ مٰں پرئیس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دربار شاہ جیونہ کے سجادہ نشین کی مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کیا۔

سابق وفاقی وزیر مخدوم فیصل صالح حیات نے 27 دسمبر 2023 کو جھنگ میں شہباز شریف کے ہمراہ پریس کانفرنس میں مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کیا (مسلم لیگ ن)

صوبہ پنجاب کے علاقے جھنگ میں واقع دربار شاہ جیونہ کے سجادہ نشین اور سابق وفاقی وزیر مخدوم فیصل صالح حیات نے پاکستان مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔

سابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے جھنگ میں پریس کانفرنس سے خطاب میں سینیئر سیاست دان کی ان کی جماعت میں شمولیت کا اعلان کیا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ وہ فیصل صالح حیات کی مسلم لیگ ن میں شمولیت پارٹی کی تقویت کا باعث بنے گی۔

سینیئر سیاست دان فیصل صالح حیات نے سیاست کا آغاز 1977 میں پاکستان پیپلزز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ کر اور کم عمر ترین رکن قومی اسمبلی بن کر اپنے سیاسی کیریئر کا اعزاز کیا تھا۔ 

انہی انتخابات کے دوران ان کی عمر پر اعتراضات بھی اٹھائے گئے تھے جو بعد ازاں غلط ثابت ہوئے۔

صحافی اور سیاسی تجزیہ کار مبشر بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’اگرچہ مخدوم فیصل صالح حیات ایک معروف روحانی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کے خالو سابق وزیر اطلاعات و نشریات مرحوم خالد احمد خان کھرل نے ان کو پیپلز پارٹی کا ٹکٹ دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’خالد کھرل چونکہ ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ کی حیثیت سے سابق وزیر اعظم اور بانی پاکستان پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے کافی قریب رہے تھے اس لیے انہیں فیصل صالح حیات کے لیے ٹکٹ لینے میں مشکل پیش نہیں آئی۔‘

مبشر بخاری کے مطابق کم عمر ترین رکن قوی اسمبلی ہونے کے ناطے مخدوم فیصل صالح حیات کی طرف میڈیا اور سیاست دانوں میں موجودگی نمایاں ہو گئی۔ 

فیصل صالح حیات 1988 سے 2012 تک متواتر رکن قومی اسمبلی رہے اور وزیر صنعت و تجارت، وزیر داخلہ اور وزیر شمالی علاقہ جات کے طور پر فرائض سر انجام دیے۔ 

مبشر بخاری کہتے ہیں کہ مخدوم فیصل صالح حیات پر سب سے کٹھن مرحلہ 2001 میں آیا، جب جنرل پرویز مشرف نے قومی احتساب بیورو کی تشکیل کی اور فیصل صالح حیات ایک بینک سے قرض لینے کے کیس میں گرفتار کر لیے گئے۔ 

’یہ ایک متنازع کیس تھا کیونکہ فیصل صالح حیات بینک کو کافی پیسے واپس کر چکے تھے اور بینک نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان کے قرضے کی واپسی کا معاہدہ ہو چکا ہے اور بینک اس میں پارٹی نہیں بننا چاہتا۔ 

اس کے باوجود فیصل صالح حیات کو ایک سال کے قریب جیل میں گزارنا پڑا اور آخر کار لاہور ہائی کورٹ نے 2002 میں ان کی ضمانت منظور کی۔‘

انہوں نے بتایا کہ فیصل صالح حیات 2002 کے انتخابات پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کی ٹکٹ پر جیتے لیکن وزیر اعظم کے چناؤ کے دوران انہوں نے  پیپلز پارٹی کے 18 دوسرے اراکین کے ہمراہ پاکستان مسلم لیگ ق کے وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی کو ووٹ دیا۔

’ان 18 اراکین نے پاکستان پیپلز پارٹی پیٹری یاٹ کے نام سے قومی اسمبلی میں فاروروڈ بلاک بنا لیا تھا جو بعد میں پاکستان مسلم لیگ ق میں ضم ہو گیا تھا۔‘  

2002 سے 2005 تک مخدوم فیصل صالح حیات وفاقی وزیر داخلہ رہے اور بعد میں انہیں وزیر شمالی علاقہ جات بنا دیا گیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2018 کے انتخابات میں وہ این اے 114 جھنگ 1 سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار صاحبزادہ محمد محبوب سلطان سے 589  ووٹوں کے فرق سے ہار گئے تھے۔

فیصل صالح حیات پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے صدر بھی رہے ہیں اور فٹ بال کے معاملات میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔ 

مبشر بخاری کے مطابق فیصل صالح حیات کی اپنی عزیزہ اور سابق وفاقی وزیر سیدہ عابدہ حسین سے پرانی سیاسی مخاصمت چلتی رہی ہے اور آج بھی قائم ہے۔ اس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے امیدواروں کی مخالفت کرتے رہتے ہیں۔ 

فیصل صالح حیات کے چھوٹے بھائی اسد صالح حیات بھی 1990 میں رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں اور 2024 کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھی انہوں نے اپنے کاغذات نامذدگی جمع کروائے ہیں۔ 

مبشر بخاری نے بتایا کہ چند ماہ قبل کو شریک چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی آصف علی زرداری نے فیصل صالح حیات سے ان کی لاہور کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور انہیں جماعت کے لیے متحرک کردار ادا کرنے کا کہا لیکن فیصل صالح حیات نے اپنی صحت اور دیگر مصروفیات کی بنا پر کوئی پارٹی عہدہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔


مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست