جموں و کشمیر کی قومی دھارے سے منسلک مقامی سیاسی جماعتوں کو اس وقت سے ایک نئے چلینج کا سامنا ہے، جب سے انڈیا کی عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کو درست قرار دیا اور یونین ٹیریٹری میں منتخب حکومت قائم کرنے کی سفارش کی ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
مقامی جماعتوں کو امید تھی کہ جموں و کشمیر کے تاریخی تنازعے کی روشنی میں اس آرٹیکل کو بحال کیا جائے گا اور اگلے 70 برسوں تک پھر ان کے لیے یہی انتخابی ایجنڈا برقرار رہے گا۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد جب انڈیا اور پاکستان کے بیچ میں جموں و کشمیر کا تنازع اٹھ کھڑا ہوا تو جہاں پاکستان نواز اور مکمل آزادی کی حامی جماعتوں نے انڈیا کے آئین کے تحت کیے جانے والے انتخابات کو ہمیشہ رد کیا یا ان کا بائیکاٹ کرنے کی کال دی، وہیں مین سٹریم جماعتیں آرٹیکل 370 کو آئین کا مستقل حصہ بنانے اور اس کی مکمل بحالی کو اپنے انتخابی منشور کا اہم ایجنڈا بناتی رہی ہیں۔
اتنا ہی نہیں بلکہ بسا اوقات سبز رومال، سبز پرچم، سبز رنگ پر انتخابی نشان اور پاکستانی نمک دکھا کر عوام کے جذبات کا استحصال کرکے ووٹ بھی حاصل کرتی رہی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا روٹی، کپڑا اور مکان کے حصول پر کم مگر اندرونی خودمختاری کو قائم و دائم رکھنے پر ہمیشہ مرکوز رہا۔ چونکہ ریاست کے طول و عرض میں حصول آزادی کا جذبہ گہرا تھا تو بعض ووٹر یہ سمجھتے رہے کہ آزادی تک اندرونی خودمختاری کو برقرار رکھنا انتہائی اہم ہے، لہٰذا اس بات کے پیش نظر لوگ انتخابات میں ووٹ ڈالتے رہے۔
اب یہ مسئلہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔ مقامی جماعتیں اپنا کیا منشور لے کر ووٹر کے پاس جائیں گی؟
یہی موضوع آج کل سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے، جہاں سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں کی اکثر سبکی ہوتی ہے، جب عام لوگ ان سے براہ راست مخاطب ہو کر ان کی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہیں، جو ماضی میں ممکن نہیں تھا۔
اندرونی خودمختاری کو ختم کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے پر گو کہ بیشتر آبادی بے زار ہے مگر عوام کے بڑے طبقے کو اس کا بھی بے صبری سے انتظار ہے کہ ان مقامی سیاسی جماعتوں کا اگلا ایجنڈا اب کیا ہو گا۔
نیشنل کانفرنس کے ایک اہم رہنما سے جب حال ہی میں ایک ایکس (سابقہ ٹوئٹر) سپیس میں پوچھا گیا کہ ابھی تک آپ آرٹیکل 370 کے سہارے تقریباً 22 برس تک کشمیریوں کے جذبہ آزادی پر شب خون مارتے رہے ہیں، چند ہفتوں کے بعد پارلیمان کے انتخابات ہونے والے ہیں تو اس بار بیچنے کے لیے آپ کی پارٹی نے کیا رکھا ہے؟
سیاسی رہنما ندامت دکھانے کے بجائے کہنے لگے کہ وہ اندرونی خودمختاری حاصل کرنے کے لیے اگلے 70 سال تک لڑیں گے۔ یہ سن کر سپیس میں بیشتر لوگ ان پر برہم ہو گئے، انہیں صلاح دی گئی کہ کیا وہ اب بھی جھوٹ کے سہارے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں اور عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے؟
نیشنل کانفرنس کے بانی رہنما شیخ محمد عبداللہ نے جب 1947 میں انڈیا کے ساتھ مہاراجہ ہری سنگھ کے الحاق کی حمایت کرکے ریاست میں اقتدار سنبھالا تھا تو وہ آئین ہند میں اندرونی خودمختاری کا وعدہ حاصل کر کے عوام کو یقین دلاتے رہے کہ انڈیا کے اندر رہ کر بھی جموں و کشمیر اپنی شناخت اور سالمیت برقرار رکھ سکتا ہے، نیشنل کانفرنس نے یہی الاپ سات دہائیوں تک برقرار رکھا اور ووٹ حاصل کرتی رہی۔
یہ شناخت اور سالمیت بیشتر انڈین قوانین کے ریاست پر اطلاق کے بعد کاغذوں تک ہی محدود رہ گئی تھی البتہ پارٹی کو انتخابات جیتنے کے لیے اس کا فائدہ بدستور ملتا رہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بانہال کے سوشل ایکٹوسٹ محمد نجیب کہتے ہیں کہ ’جب پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی وجود میں آئی تو اس نے نیشنل کانفرنس کی اندرونی خودمختاری کے ایجنڈے کو زائل کرنے کے لیے سیلف رول کا منشور پیش کیا۔ اس پارٹی کو لانچ کرنے کی ذمہ داری انڈیا کے انٹیلی جنس اداروں اور بی جے پی کے سینیئر رہنماؤں پر ڈالی جاتی ہے، جو ریاست میں ایک پارٹی کی حیثیت اور اس کے اندرونی خودمختاری کے الاپ کو ختم کرنے کے لیے لازمی سمجھتے تھے۔‘
اندرونی خودمختاری کو ختم کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے پر گو کہ بیشتر آبادی بے زار ہے مگر عوام کے بڑے طبقے کو اس کا بھی بے صبری سے انتظار ہے کہ ان مقامی سیاسی جماعتوں کا اگلا ایجنڈا اب کیا ہو گا، جو چند مہینوں سے جلسے جلوس کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی دوڑ میں ہیں اور کیا ووٹر ان کو ووٹ دینے کے لیے راضی ہو گا۔
اس وقت درجنوں سیاسی جماعتیں منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنا ووٹ بیس بنانے میں سب سے آگے نظر آرہی ہے۔
نیشنل کانفرنس کے سرکردہ کارکن راجہ بشارت کہتے ہیں کہ بی جے پی آج کل اکثر کشمیری نوجوانوں کو مختلف پروجیکٹ دے کر ان کی سیاسی تربیت کر رہی ہے۔ نئی انتخابی حلقہ بندی، جموں میں اضافی نشستوں، کشمیری پنڈتوں اور پسماندہ طبقوں کی مخصوس نشستوں کی بدولت پارٹی کو امید ہے کہ وہ ترقی، سیاحت اور معیشت کی بحالی کو ایجنڈا بنا کر انتخابات جیتے گی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مقامی جماعتوں کی غلط پالیسیوں کے باوجود اکثر ووٹر ان کو ہی جتانے کی پہل کریں گے، جو کم از کم عام لوگوں کی بنیادی مشکلات کو محسوس کرسکتی ہیں۔
یونین ٹیریٹری بننے کے بعد انتظامیہ میں غیر مقامی افسروں کی موجودگی کی وجہ سے عوام اور افسران کے بیچ میں روابط کی کمی بتائی جاتی ہے، مانا کہ ووٹروں کے لیے یہ روابط بحال کروانا بہت اہمیت رکھتے ہیں، مگر جیت کا انحصار نئے انتخابی ایجنڈے پر ہو گا، جسے طے کرنا سیاسی جماعتوں کے لیے اب آسان نہیں ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔