خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں شامل سابق قبائلی علاقے باجوڑ میں کم از کم بیس خواتین کو لیویز فورس میں بھرتی کرانے کا پہلی مرتبہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں تمام تر ضروری ہدایات متعلقہ سرکاری حکام کوجاری کر دی گئی ہیں۔
ڈپٹی کمشنر باجوڑ عثمان محسود نے انڈپینڈنٹ اردو سے اس تفصیلی گفتگو میں بتایا کہ پولیس کو علاقے میں چیک پوسٹ پر تلاشی یا چھاپوں کے وقت اکثر خواتین اہلکاروں کی ضرورت پیش آتی تھی۔ اس کے علاوہ جب کوئی دھماکہ یا اس نوعیت کا کوئی واقعہ پیش آجاتا تو مقامی لوگوں کو بھی شدت سے احساس ہوتا کہ اس محکمے میں خواتین کا بھرتی ہونا ضروری ہے۔
”اب چونکہ فاٹا خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکا ہے، لہذا پرانے اجتماعی سزا کے نظام کے برعکس انفرادی سزا کا تصور ہوگا۔ ایسے میں اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ خواتین پر مبنی عملہ رکھا جائے۔ جہاں تک لیویز فورس میں خواتین کی بھرتی کی بات ہے، یہ تمام خواتین باجوڑ یا پھر دیگر ملحقہ علاقوں سے گریڈ فور میں منتخب کی جائیں گی۔ تعلیمی شرط بس ان کا خواندہ ہونا ضروری ہے۔”
حکام نے تاہم یہ نہیں بتایا ہے کہ ان خواتین کی بھرتی کب تک مکمل ہوگی اور وہ کس سے اپنے فرائض سرانجام دینا شروع کریں گی۔
سلارزئی قبیلے سے تعلق رکھنے والی نائیلہ حبیب نے خواتین کی بھرتیوں کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ باجوڑ کی خواتین چونکہ نڈر ہوتی ہیں، یہ تمام قبائل کی لڑائیوں میں اپنے مردوں کا برابر کا ساتھ دیتی آئیں ہیں۔اس لئے لیویز یا آگے پولیس میں وہ ایک اچھا اضافہ ثابت ہوں گی۔ ان کو امید تھی کہ ”یہ فیصلہ آگے مزید محکموں میں خواتین کو سامنے لانے کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ ساتھ ہی خواتین کی تعلیم کی ضرورت و اہمیت پر نظرثانی ہوگی جس
کی شرح پاکستان کے دوسری جگہوں کے مقابلے میں باجوڑ اور باقی سابق فاٹا میں بہت کم ہے۔ ایک پرائمری سکول کے لیے صرف ایک ہی استانی ہوتی ہے، وہ بھی یا تو پشاور یا دوسرے علاقوں سے آئی ہوتی ہے یا پھر کسی ملک کی بیٹی ہوتی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ”اگر فاٹا کی خواتین کو مواقع مل جائے تو وہ بہت بڑی تبدیلی لاسکتی ہیں۔ کیونکہ وہ نہایت محنت کش ہوتی ہیں اور بہت پہلے سے ہی گھر اور باہر ذمہ داریاں نبھاتی آئی ہیں۔ چاہے بچوں کی پرورش ہو، کھیتی باڑی ہو یا پھر دور دراز علاقے سے پانی لانا ہو۔”
سابق گورنر شوکت اللہ خان سے جن کا خاندان تقریبا سات سو سال سے پشت در پشت باجوڑ پر حکمرانی کرتا آیا ہے، انڈپینڈنٹ اردو نے سوال کیا کہ علاقے کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے وہ خواتین کی اس اٹھان کو کیسے دیکھتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’’بہت اچھی بات ہے کہ اب خواتین بھی گھریلو اقتصادی امور نبھانے میں حصہ دار بن جائیں گی۔ لیکن لیویز میں صرف 20 خواتین کی بھرتی بہت کم تعداد ہے۔ اس کو زیادہ کر دینا چاہئے۔“