ترکی کے حکام کے مطابق پولیس نے منگل کو استنبول کی مرکزی عدالت کے باہر ایک سکیورٹی چوکی پر حملہ کرنے والی کالعدم ’دہشت گرد‘ تنظیم کے دو حملہ آوروں کو گولی مار دی، جس سے ان کی موت واقع ہو گئی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حملے کے نتیجے میں ایک شہری جان سے گیا اور پولیس اہلکاروں سمیت پانچ زخمی ہوئے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں استنبول میں ہونے والے اس حملے کی سخت مذمت کی ہے۔
سعودی عرب نے استنبول واقعے کے مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مملکت تمام قسم کے تشدد اور دہشت گردی کے خلاف ہے۔
وزارة الخارجية تعرب عن إدانة المملكة لحادثة إطلاق النار في مدينة إسطنبول التركية، مؤكدة موقف المملكة المناهض لكل أشكال العنف والإرهاب.https://t.co/9vkaFPTh81#واس_عام pic.twitter.com/ENAtSqFhns
— واس العام (@SPAregions) February 6, 2024
ترکی کے وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے کہا ہے کہ حملہ آور انقلابی پیپلز لبریشن پارٹی فرنٹ (ڈی ایچ کے پی-سی) کے ارکان تھے، جو بائیں بازو کا ایک انتہا پسند گروپ ہے اور 1980 کی دہائی سے ترکی میں وقفے وقفے سے حملے کرتا رہا ہے۔
ڈی ایچ کے پی-سی نے ابتدائی طور پر ذمہ داری کا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔
یہ گروپ، جس کو امریکہ ایک دہشت گرد تنظیم تصور کرتا ہے، مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں امریکی اثر و رسوخ کے خلاف لڑ رہا ہے۔
2014 میں واشنگٹن نے گروپ کے رہنماؤں کو پکڑنے پر 30 لاکھ ڈالر انعام دینے کا اعلان کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا، ’میں اپنی سکیورٹی فورسز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے بروقت کارروائی سے غدارانہ حملہ ناکام بنایا۔
’دو دہشت گردوں کو مار دیا گیا ہے جن میں سے ایک خاتون اور دوسرا مرد تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ حملے میں تین پولیس اہلکار اور تین شہری زخمی ہوئے جن میں سے ایک بعد میں جان کی بازی ہار گیا۔
ایک عینی شاہد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ حملہ آوروں نے بہت بڑی عمارت کے مرکزی داخلی دروازے کی طرف جانے والے راستے پر ایک چیک پوسٹ پر مختصر جھگڑے کے بعد پولیس پر فائرنگ کی۔
25 سالہ مہر یلدیز نے کہا، ’خارجی دروازے پر جھگڑا شروع ہو گیا۔ میں نے دو لوگوں، ایک مرد اور ایک عورت کو پولیس پر گولی چلاتے ہوئے دیکھا۔ مرد کو پہلے گولی ماری گئی۔ اس کے بعد خاتون نے کچھ اور گولیاں چلائیں۔ انہوں نے اسے بھی گولی مار دی۔
’میں نے 20-25 گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں۔ اس وقت بہت خوف و ہراس تھا۔ ہم معلوم نہیں تھا کہ کس طرف جانا ہے۔ پولیس نے داخلی اور خارجی راستے بند کر کے سب کو اندر جمع کر لیا تھا۔‘
پولیس نے حفاظتی احتیاط کے طور پر عدالت کے داخلی راستوں کو سیل کردیا۔
’بہادر پولیس‘
وزیر انصاف یلماز تنک نے کہا کہ ’بہادر پولیس افسران نے غدارانہ حملے کو روکا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ استغاثہ نے ’کثیر جہتی تحقیقات‘ کا آغاز کر دیا ہے۔
ترکی میں ایک دہائی قبل شروع ہونے والا پرتشدد دور ختم ہو رہا ہے۔ اگرچہ مخلتف تنطیموں سے وابستہ عسکریت پسندوں کے حملوں میں کافی حد تک کمی آئی ہے، لیکن استنبول اور دارالحکومت انقرہ میں ہائی الرٹ ہے۔
گذشتہ ماہ استنبول میں ایک کیتھولک چرچ کے اندر دو مسلح افراد نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک شخص جان سے گیا۔
اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند کالعدم تنظیم دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی۔
اکتوبر میں دو حملہ آوروں نے انقرہ میں سرکاری عمارت پر ایک حملے میں دو پولیس اہلکاروں کو زخمی کر دیا تھا جس کی ذمہ داری کرد عسکریت پسندوں نے قبول کی تھی۔
اس کے جواب میں ترکی نے شام اور عراق میں کردوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے بڑھا دیے تھے۔
2013 میں ڈی ایچ کے پی-سی نے انقرہ میں امریکی سفارت خانے پر خودکش حملہ کیا تھا جس میں ایک ترک سکیورٹی گارڈ مارا گیا تھا۔