جدید ترکی کے 100 سال، اتاترک کی جمہوریہ کا مستقبل کیا ہوگا؟

مئی میں تیسری مدت کے لیے منتخب ہونے والے اردوغان کو صد سالہ تقریب میں ملک کی ازسرنو تشکیل اور اسے ایک نئے دور میں لے جانے کا موقع ملے گا جسے انہوں نے ’ترکی کی صدی‘ کا نام دیا ہے۔

ایک خاتون ترکی کے قیام کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر ترک شہر ادرنے میں لگائے گئے ایک بینر کے سامنے سے 25 اکتوبر 2023 کو گزر رہی ہیں (اے ایف پی)

قومی آزادی کے ہیرو مصطفی کمال اتاترک نے سلطنت عثمانیہ کے کھنڈرات سے جس ترک جمہوریہ کی بنیاد رکھی وہ اتوار 29 اکتوبر کو 100 سال کا ہوچکا ہے۔

اتاترک نے اس وقت کی بڑی طاقتوں کی طرز پر ایک مغربی رخ والی سیکولر جمہوریہ قائم کی، جس نے بنیادی اصلاحات کا آغاز کیا جن سے خلافت کا خاتمہ ہوا، عربی رسم الخط کو رومن حروف تہجی سے بدل دیا، خواتین کو ووٹ دیا اور یورپی قوانین اور ضابطوں کو اپنایا۔

تاہم صدر رجب طیب اردوغان کی دو دہائیوں پر محیط حکومت میں ترکی نے زیادہ قدامت پسند کردار اختیار اپنا لیا ہے، جن کی پارٹی کی جڑیں ملک کی اسلامی تحریک میں ہیں اور جو اتاترک کے بعد ترکی کے سب سے بااثر رہنما بن چکے ہیں۔

مئی میں تیسری مدت کے لیے منتخب ہونے والے اردوغان کو صد سالہ تقریب میں ملک کی ازسرنو تشکیل اور اسے ایک نئے دور میں لے جانے کا موقع ملے گا جسے انہوں نے ’ترکی کی صدی‘ کا نام دیا ہے۔

ترکی کی دوسری صدی کے آغاز پر ذیل میں اس جمہوریہ کی سب سے بڑی کامیابیوں اور متنازع تبدیلیوں کا ذیل کیا گیا ہے۔

مذہبی شناخت

ترکی میں سیکولر بمقابلہ قدامت پسند بحث سب سے زیادہ متنازع ثقافتی تقسیم میں سے ایک ہے۔

قوم کے بانی اتاترک نے جدیدیت کی شرط کے طور پر ایک سیکولر ملک کا تصور کیا تھا۔ کئی دہائیوں کے دوران، مذہب اور ریاست کی علیحدگی گہری جڑوں والا ایک نظریہ بن چکی ہے۔

ملک نے سکولوں اور سرکاری اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کردی، مذہبی تعلیم پر پابندی لگائی، شراب پر لبرل پالیسیاں اختیار کیں اور حتیٰ کہ عثمانی شاہی مسجد، آیا صوفیہ کو میوزیم میں تبدیل کردیا۔

ان تمام پالیسیوں کو اردوغان کے دور میں پلٹ دیا گیا ہے، جنہوں نے ملک کو قدامت پسندی کی طرف موڑ دیا ہے۔

اب سرکاری تقریبات کا آغاز دعاؤں کے ساتھ ہوتا ہے، ڈائریکٹوریٹ آف مذہبی امور کو ایک بجٹ دیا گیا ہے جو زیادہ تر وزارتوں سے کم ہے، مذہبی مدارس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور حتیٰ کہ اردوغان کی شرح سود میں کمی کی غیر روایتی معاشی پالیسی، جسے حال ہی میں ترک کر دیا گیا ہے – کو مذہبی بنیادوں پر جائز قرار دیا گیا تھا۔

واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ میں ترکی کے متعلق ماہر اور اردوغان پر متعدد کتابوں کے مصنف سونر کاگپٹے کہتے ہیں، ’اتاترک ایک اعلیٰ درجے کا سیاست دان تھا جو سوشل انجینئرنگ پر یقین رکھتا تھا اور وہ ترکی کو ایک مغربی رخ والے سیکولر یورپی معاشرے کی شکل دینا چاہتا تھا۔

’اردوغان بھی سوشل انجینئرنگ پر یقین رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کا طریقہ اتاترک سے ملتا جلتا ہے، لیکن اقدار تقریباً ان کے بالکل برعکس ہیں۔‘

سفارت کاری

اس ملک نے 1952 میں نیٹو میں شمولیت اختیار کی تھی اور باضابطہ طور پر یورپی یونین میں شمولیت کا امیدوار ہے - اگرچہ رکنیت کے مذاکرات اب رک گئے ہیں۔ بیسویں صدی کے بیشتر حصے میں ترکی کے مفادات عام طور پر مغربی ممالک کے مفادات سے مطابقت رکھتے تھے۔

تاہم، حالیہ برسوں میں، ترکی نے زیادہ جارحانہ خارجہ پالیسی اپنائی ہے جس کا مقصد انقرہ کی رسائی کو علاقائی اور عالمی سطح پر بڑھانا ہے۔ اس نئی آزاد سفارت کاری سے ترکی کا مغربی مفادات کے خلاف کھڑے ہونے کا اتنا ہی امکان ہے جتنا کہ ان کے ساتھ اتحاد کا۔

ترکی اور مغرب کے درمیان کشیدگی کا ایک حالیہ نقطہ شام میں رہا ہے، جہاں ترکی اکثر مقامی کرد فورسز کے خلاف حملے کرتا رہتا ہے جنہیں یورپ اور امریکہ اپنا اتحادی سمجھتے ہیں اور ترکی کالعدم کردستان ورکرز پارٹی یا پی کے کے کی شاخ سمجھتا ہے۔

ترکی اب شام کے ایک بڑے علاقے پر قابض ہے اور کرد جنگجوؤں کے خلاف شام اور عراق کے ساتھ اپنی سرحدوں کے ساتھ ایک بفر زون بنانے کی بات کرتا ہے۔

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد ، سویڈن اور فن لینڈ دونوں نے اپنی دیرینہ غیر جانبداری کو ترک کرنے اور نیٹو میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس کے باوجود ترکی سویڈن کی رکنیت کے خلاف سب سے بڑا مخالف بن گیا اور سویڈن پر الزام عائد کیا کہ وہ پی کے کے اور ترکی کی طرف سے کالعدم قرار دیے گئے دیگر گروہوں کے ساتھ بہت نرم رویہ رکھتا ہے۔

ترکی کی نئی اور حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی روس کے ساتھ  اس کے تعلقات تک بھی پھیلی ہوئی ہے جو ایک اہم تجارتی شراکت دار ہے۔

اگرچہ زیادہ تر نیٹو ممالک نے یوکرین پر حملے پر ماسکو کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے، انقرہ نے جنگ کی مخالفت کرنے کے باوجود قریبی تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ نیٹو اتحاد میں رکاوٹ کھڑی کرتے ہوئے، ترکی کی عدم وابستگی اسے ایک منفرد پوزیشن میں لاتی ہے جہاں وہ یوکرین کی جنگ سمیت عالمی تنازعات میں ثالث کا کردار ادا کرسکتا ہے۔

ترکی کو ایک بڑی طاقت میں تبدیل کرنے کی خواہش کے اتاترک اور اردوغان کے مقاصد میں کاگاپٹے کو مماثلت نظر آتی ہے۔ لیکن اگرچہ اتاترک نے اس وقت کی یورپی طاقتوں کی پالیسیوں کو اپنانے اور ان کی نقل کرنے کا فیصلہ کیا، کاگاپٹے کہتے ہیں اردوغان کو ’ترکی کو یورپ کے تحت لانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے بل بوتے پر یہ حاصل کرسکتے ہیں۔‘

دفاعی صنعت

1974 میں یونان کے ساتھ اتحاد کے حامیوں کی طرف سے بغاوت کے بعد قبرص پر حملے اور کرد گروپوں کے خلاف فوجی کارروائی کے بعد ترکی کواسلحے کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

حال ہی میں روسی میزائل دفاعی نظام کی خریداری، جس سے نیٹو اتحادی ناراض ہوگئے تھے، پر اس ملک کو امریکی لڑاکا طیارے کے پروگرام سے نکال دیا گیا تھا۔

تاہم، ترکی کی بڑھتی ہوئی ملکی اسلحے کی صنعت کی وجہ سے اسلحے کی فروخت پر پابندیاں کم سے کم بوجھ بنتی جا رہی ہیں۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی دفاعی صنعت ملکی پیداوار کے 20 فیصد سے بڑھ کر 80 فیصد ہوگئی ہے۔

یہ ’مقامی اور دیسی‘ پیداوار رائفلوں اور ٹینکوں سے لے کر حملہ کرنے والے بحری جہازوں اور ایک نیا لڑاکا طیارہ کان تک ہے، جس کو 2028 میں اڑانے کا منصوبہ ہے۔

ترکی ہتھیاروں کا ایک بڑا برآمد کنندہ بھی بن چکا ہے، بالخصوص اس کے مقامی طور پر تیار کردہ لڑاکا ڈرونز۔ یہ یوکرین، متحدہ عرب امارات، پولینڈ اور آذربائیجان سمیت بہت سے ممالک کے ہتھیاروں میں شامل ہو چکے ہیں۔

اردوغان کے داماد سیلکوک بیرکتر کے خاندان کی ملکیت اور ڈیزائن کردہ بیرکتر ڈرونز یوکرین کی جنگ میں خاص طور پر مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔

جدیدیت

اتاترک کی اصلاحات اور جدیدیت کی مہم نے ترکی کو اس گہری غربت سے نکالنے میں مدد کی جس کا سامنا اسے عثمانی سلطنت کے خاتمے کے بعد کرنا پڑا تھا۔ آج، ملک 20 سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک کے گروپ کا رکن ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اردوغان کا دور ایک دور رس تعمیراتی عروج کا مترادف بن چکا ہے۔ ملک بھر میں شاہراہیں، پل، سرنگیں، پائپ لائنیں، ہوائی اڈے، ہسپتال اور بے شمار رہائش گاہیں بن چکی ہیں۔  یہ نیا انفراسٹرکچر اردوغان کی حکومت کے لیے فخر کا ایسا ذریعہ ہے کہ اکثر انتخابی مہم میں اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔

اگرچہ ترکی فعال طور پر تعمیراتی ترقی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے اپنی ریگولیشن کے بارے میں لاپرواہی کا رویہ اپنایا ہے۔

فروری میں ایک تباہ کن زلزلے کے بعد، بلڈنگ قوانین کے لاپرواہی کو وسیع پیمانے پر تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

اردوغان کے کچھ منصوبے سیاسی تنازعات کا موضوع بھی رہے ہیں، جن میں انقرہ کے اندر صدر کے لیے تعمیر کیے گئے بڑے محل سے لے کر ملک بھر میں تعمیر کیے گئے چھوٹے محلات شامل ہیں۔

ان کی اب تک کی سب سے بڑی تجویز، استنبول سے ایک عظیم الشان نہر گزارنا ، نے ماحول اور مقامی ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچنے کا خدشہ پیدا کردیا ہے۔

مسائل

گذشتہ 100 برسوں میں ترکی کے اندر فوجی بغاوتوں، معاشی بحران اور اکثر غیر مستحکم حکومتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ آج اسے بہت سے حل طلب مسائل کا سامنا ہے جن میں کرد باغیوں کے خلاف لڑائی بھی شامل ہے جو چار دہائیوں سے جاری ہے اور ترکی، شام اور عراق میں روزانہ کی فوجی کارروائیوں کے باوجود جلد حل نظر نہیں آتا۔

ترکی کی جارحانہ خارجہ پالیسی کا مطلب ہے کہ ہمسایوں کے ساتھ اس کے تعلقات دوست اور دشمن کے میں  بدلتے ہیں۔

پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام کی طرف حالیہ منتقلی نے چیک اینڈ بیلنس کو مزید کمزور کر دیا ہے اور صدر کے ہاتھوں میں اختیارات کو مضبوط بنایا ہے۔

بالخصوص 2016 میں ناکام بغاوت کے بعد سے اس کے جمہوری طور پر پیچھے سرکنے کو بین الاقوامی توجہ ملی اور یورپی یونین میں شمولیت کی اس کی کوشش کو سنگین خطرے میں ڈالا دیا ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن میں ترکی کو 180 ممالک میں سے 101 ویں نمبر پر رکھا ہے۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے 180 ممالک میں سے ترکی کو 165 ویں نمبر پر رکھا جو کہ گذشتہ سال 149 تھا۔

گذشتہ سال اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے اپنے ڈیموکریسی انڈیکس میں ترکی کو 167 میں سے 103 ویں نمبر پر رکھا اور اسے آمرانہ ریاست اور ناقص جمہوریت کے درمیان ایک ہائبرڈ حکومت قرار دیا تھا۔

ان سب کے علاوہ، حالیہ برسوں میں اس کی معیشت کو سنگین مندی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس میں افراط زر کی شرح بلند دو ہندسوں میں ہے۔ زیادہ تر ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ زلزلے کے بعد تعمیر نو کے زیادہ اخراجات کی وجہ سے افراط زر میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس زلزلے میں 50 ہزار سے زیادہ اموات ہوئی تھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ