عام انتخابات کے بعد زرداری اور شہباز مخلوط حکومت کے لیے متحرک

پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کافی حد تک مکمل ہو چکے ہیں، لیکن وفاق میں کوئی بھی ایک سیاسی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی، جس کے بعد سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

21 فروری 2008 کی اس تصویر میں اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف سے مصافحہ کرتے ہوئے جبکہ دائیں جانب مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف بھی موجود ہیں (عامر قریشی/ اے ایف پی)

پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کافی حد تک مکمل ہو چکے ہیں، لیکن وفاق میں کوئی بھی ایک سیاسی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی، جس کے بعد مخلوط حکومت کے لیے رابطے شروع ہوگئے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں، جس کے حوالے سے ہفتے کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ان کی جماعت وفاق میں حکومت بنائے گی جبکہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کو برتری حاصل ہے۔

پی ٹی آئی کے بعد سب سے زیادہ نشستیں ابھی تک مسلم لیگ ن کی ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ یہ پہلے سے طے تھا کہ سابقہ مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں مل کر ہی حکومت بنائیں گی، لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’مفاہمتی پالیسی‘ کی بجائے یہ کام ’مجبوری‘ میں کیا جائے گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب لاہور میں مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف سے ملاقات ہوئی، جس میں حکومت کی تشکیل سے متعلق ابتدائی گفتگو شروع ہوگئی ہے۔

دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کی ملاقات پنجاب کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی رہائش گاہ پر ہوئی، جس میں ذرائع کے مطابق یہ طے پایا کہ آزاد جیتنے والے اراکین قومی اسمبلی کو حکومت میں شامل کرنے کے لیے ساتھ ملایا جائے۔

اس حوالے سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھنے اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ مشاورت پر بھی اتفاق ہوا ہے۔

مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے جمعے کی شام پارٹی کے مرکزی دفتر میں کارکنوں سے خطاب میں سب اتحادیوں کے ساتھ مل کر دوبارہ حکومت بنانے کا عندیہ دیا۔ انہوں نے رابطوں کا ٹاسک بھی شہباز شریف اور اسحٰق ڈار کو سونپنے کا اعلان کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کامیاب کروانے کا سلسلہ بھی لاہور میں زرداری اور شہباز شریف کی ملاقات سے شروع ہوا تھا۔

اب ایک بار پھر سیاسی قائدین متحرک ہو چکے ہیں۔ ان دونوں بڑی جماعتوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ زیادہ سے زیادہ آزاد منتخب اراکین اسمبلی کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت ہٹانے کے لیے تو ان کی ٹکٹ پر جیت کر ایوان میں بیٹھنے کے بعد اراکین کی وفاداریاں تبدیل کروانا پڑی تھیں، لیکن اس بار چونکہ پی ٹی آئی کی حمایت سے جیتنے والے بھی آئینی طور پر آزاد ہیں، لہذا انہیں ساتھ ملانا قدرے آسان ہوگا۔

اس کے علاوہ متعدد نو مبتخب اراکین کا کسی سیاسی جماعت سے بھی تعلق نہیں تو ان کے بارے میں قیاس یہی ہے کہ وہ کسی بڑی پارٹی میں شامل ہو جائیں گے۔

منتخب اراکین کو حلقوں میں ترقیاتی کام کروانے کے لیے حکومتی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے زیادہ تر آزاد منتخب ہونے والے اراکین اپوزیشن کی بجائے حکومت بنانے والی جماعتوں کا حصہ بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔

دوسری جانب چھوٹی سیاسی جماعتیں بھی اسی فارمولے کے تحت حکومتی بینچوں کو ہی ترجیح دیتی آئی ہیں۔

ہر انتخاب کے بعد یہی صورت حال بنتی رہی ہے۔ 2018 کے انتخاب میں بھی تحریک انصاف کو سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں بھی ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق، بلوچستان عوامی پارٹی، شیخ رشید اور آزاد اراکین کو ساتھ ملا کر حکومت بنانا پڑی تھی اور اس مرتبہ بھی کچھ یہی صورت حال ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان