فلسطین کے وزیر خارجہ ریاض المالکی نے پیر کو اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت کو بتایا ہے کہ فلسطینی عوام اسرائیل کی جانب سے ’نوآبادیاتی اور نسلی امتیاز‘ کا سامنا کر رہے ہیں۔
عدالت فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کے قانونی جواز کا جائزہ لے رہی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فلسطینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’فلسطینیوں نے سامراجیت اور نسل پرستی کا سامنا کیا۔ ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں ان الفاظ پر غصہ آتا ہے۔ انہیں اس حقیقت پر غصہ آنا چاہیے جس کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔‘
عالمی عدالت انصاف 1967 سے فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کے قانونی مضمرات پر گذشتہ ایک ہفتے سماعت کر رہا ہے جس میں 52 ممالک کی جانب سے ثبوت پیش کیے جانے کی توقع ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔
امریکہ، روس اور چین سمیت مختلف ممالک عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے مرکزی دفتر دی ہیگ کے پیس پیلس میں ججوں کے سامنے اظہار خیال کریں گے۔
فلسطینی وزیر خارجہ نے عدالت پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دے اور قبضہ کو فوری، مکمل اور غیر مشروط طور پر ختم کرنے کا حکم دے۔
انہوں نے کہا کہ ’انصاف میں تاخیر کا مطلب انصاف سے محروم کرنا ہے اور فلسطینی عوام طویل عرصے سے انصاف سے محروم ہیں۔‘
’اب وقت آگیا ہے کہ ان دہرے معیاروں کو ختم کیا جائے جنہوں نے ہمارے لوگوں کو طویل عرصے سے قیدی بنا رکھا ہے۔‘
دسمبر 2022 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے آئی سی جے سے کہا تھا کہ وہ ’مشرقی بیت المقدس سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اسرائیل کی پالیسیوں اور اس کے اقدامات سے سامنے آنے والے قانونی نتائج‘ کے بارے میں ’مشاورتی رائے‘ طلب کرے جس کی پابندی کرنا ضروری نہیں۔
اگرچہ عالمی عدالت انصاف کی کوئی بھی رائے پابندی عائد نہیں کرتی لیکن یہ غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے حوالے سے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی قانونی دباؤ کے ماحول میں سامنے آئی ہے۔
عالمی عدالت انصاف میں کیس کی یہ سماعت جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کیے گئے اس ہائی پروفائل کیس سے الگ ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ پر حالیہ حملے کے دوران ’نسل کشی‘ کا ارتکاب کر رہا ہے۔
آئی سی جے نے جنوری میں اس معاملے میں فیصلہ سنایا تھا کہ اسرائیل نسل کشی روکنے اور غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کی اجازت دینے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ عدالت نے فائر بندی کا حکم جاری کرنے سے گریز کیا۔
جمعے کو عدالت نے جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل پر اضافی پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کو مسترد کر دیا لیکن اس فیصلے پر مکمل عمل درآمد کی ضرورت کا اعادہ کیا۔
فلسطینی علاقوں پر طویل عرصے جاری قبضہ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے آئی سی جے سے دو سوالات پر غور کرنے کا کہا ہے۔
سب سے پہلے عدالت کو اقوام متحدہ کے مطابق ’فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کی اسرائیل کی طرف سے خلاف ورزی‘ کے قانونی نتائج کا جائزہ لینا چاہیے۔
جس کا تعلق ’1967 سے جاری فلسطینی علاقے پر طویل قبضے، آبادکاری اور الحاق‘ اور مقدس شہر مقبوضہ بیت المقدس کی ’آبادی، کردار اور حیثیت کو تبدیل کرنے کے اقدامات‘ سے ہے۔
آئی سی جے سے یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے ’متعلقہ امتیازی قانون سازی اور اقدامات‘ کے نتائج کا جائزہ لے۔
دوسری بات یہ کہ آئی سی جے کو بتانا چاہیے کہ اسرائیل کے اقدامات ’قبضے کی قانونی حیثیت کو کس طرح متاثر کرتے ہیں‘ اور اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کے لیے اس کے کیا نتائج ہوں گے۔
عدالت ممکنہ طور پر اس سال کے آخر تک اس معاملے پر ’فوری‘ فیصلہ سنائے گی۔