پاکستانی سینیما گھروں کا اس وقت ایک ہی آسرا ہے اور وہ بیرون ملک میں بننے والی پنجابی فلمیں ہیں جو بنیادی طور پر برطانیہ میں بنی ہوتی ہیں۔ اگرچہ ان فلموں میں پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک سے اداکار ہوتے ہیں، لیکن مرکزی کردار ہمیشہ انڈیا کے اداکار ہی نبھاتے آئے ہیں۔
تاہم اس مرتبہ کچھ مختلف ہوا۔ انڈیا کی پنجابی فلم ’جی وے سوہنیا جی‘ میں مرکزی کردار اور وہ بھی ہیرو کے کردار کے لیے پاکستانی اداکار عمران عباس کا انتخاب کیا گیا۔
یہ خبر معمولی نہیں تھی، کیونکہ ایسا شاذ و نادر ہہی ہوتا ہے کہ پاکستان سے ہیرو لیا جائے، عام طور پر ہیروئین پاکستان سے لی جاتی ہیں اور ہیرو انڈیا کا ہی ہوتا ہے۔
اسی وجہ سے یہ خبر اہم تھی۔ اب ہم نے عمران عباس کے کراچی آنے کا انتظار شروع کیا، اور پھر معلوم ہوا کہ وہ صرف چند گھنٹوں کے لیے ہی آرہے ہیں۔ ایسے میں ہم نے انڈپینڈںٹ اردو کے لیے ان سے وقت لیا اور ان کے پاس پہنچ گئے۔
یہ انٹرویو رات کے ایک بجے کے بعد ریکارڈ کیا گیا ہے۔
عمران عباس سے پہلا سوال ان کی فلم اور کردار پر ہی کیا تھا جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ دراصل ایک پاکستانی لڑکے کا کردار ہےجو ایک سیدھا سادہ سا انسان ہے، اس کردار کے لیے وہ موزوں تھے۔
’کیونکہ انڈیا میں میرا کام دیکھا جاتا ہے اس لیے وہاں کے پروڈیوسر اور ہدایتکار نے سوچا کہ مجھے سائن کرتے ہیں، یہ 2022 کی بات ہے جب مجھے فون آیا تھا، میں اس وقت ناروے میں تھا اور اس کے بعد تقریباً ایک سال کا عرصہ لگ گیا اس کی تیاری میں۔‘
عمران عباس کے مطابق اس فلم کی کہانی بہت اچھی ہے، اس لیے اس کہانی کی خاطر وہ پنجابی فلم کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ’اس فلم کے ذریعے جو پیغام دیا جارہا ہے وہ بہت اہم ہے، مزید یہ کہ وہ اسلام آباد میں رہتے ہیں، لاہور کے این سی اے سے انہوں نے تعلیم حاصل کی، بہت سے دوست پنجابی ہیں، اس لیے یہ زبان ان کے لیے شناسا ہی تھی، پھر انہیں خود پنجابی شاعری پسند ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ بالی وڈ کے بہت سے بڑے پروڈکشن ہاؤس کی فلمیں چھوڑ چکے ہیں۔
’لیکن اس بات پر مجھے فخر ہے کہ میں پہلا پاکستانی ہوں جس نے انڈین پنجابی فلم میں مرکزی کردار ادا کیا ہے‘۔
عمران عباس نے بتایا کہ عام طور پر انڈیا کی فلموں میں جب سرحد پار محبت کی کہانی ہوتی ہے تو لڑکی پاکستانی اور لڑکا انڈین ہوتا ہے، لیکن اس میں اس کے الٹ ہے کیونکہ کہانی کا تقاضہ ہی یہی تھا۔
’ یہ کہانی بہت سارے زخم بھرے گی، بہت سے آگے کے راستے کھلیں گے، اس فلم سے پاکستان اور انڈیا کا پیار کا تعلق استوار ہوگا۔ خاص کر پنجاب کا تعلق اور فن و ثقافت محبت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اور میں اس خوبصورت کاوش کا حصہ بنا جس کی مجھے بہت خوشی ہے۔‘
پنجابی فلم میں ڈانس کے بارے میں عمران عباس نے بتایا کہ یہ روایتی فلموں سے مختلف ہے کیونکہ وہ ہمیشہ بارش کا پہلا قطرہ بننے میں فخر محسوس کرتے ہیں، جیسے ان کی بپاشا باسو کے ساتھ فلم ’کریچر‘ تھری ڈی انڈیا کی پہلی سی جی آئی فلم تھی، اگرچہ باکس آفس پر زیادہ نہیں چل سکی۔
بپاشا باسو سے متعلق سوال پر عمران عباس کا کہنا تھا کہ وہ بہت زبردست خاتون ہیں، وہ دل سے بھی بہت حسین ہیں، بلکہ جتنی وہ سکرین پر نظر آتی ہیں، وہ حقیقت میں اس سے زیادہ حسین ہیں۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان فلمی تعلقات پر عمران عباس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کون سا ایسا گھر ہے جہاں رفیع یا لتا منگیشکر کے گانے نہیں چلتے ہوں گے، اسی طرح ہمارے نصرت فتح علی خان اور میڈم نور جہاں سے لے کر عاطف اسلم تک کے گانے وہاں چلتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’بارش جب برستی ہے تو سرحد نہیں دیکھتی، سورج نکلتا ہے تو وہ سب کو روشن کرتا ہے کیونکہ فنون لطیفہ تو دل جوڑںے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔‘
عمران عباس کا دعوٰی ہے کہ اس فلم میں انہوں نے کھل کر اداکاری کی ہے، اور ان کی یہ فلم بالی وڈ کی ان کی ماضی کی فلموں سے کسی طور بھی کم نہیں ہے۔
اس پنجابی فلم میں پاکستانی گلوکار عاطف اسلم نے بھی گانا گیا ہے اور وہ گانا عمران عباس پر فلمایا گیا ہے جو اس فلم کے کلائمکس کا گانا ہے۔
عمران عباس نے شکر ادا کیا کہ ’اس دور میں جتنے بھی بڑے گانے والے ہیں ان سب ہی کے گانے مجھ پر فلمائے جا چکے ہیں اور میں اس ضمن میں کافی خوش قسمت ہوں۔‘
فلم کی زیادہ تر عکاسی برطانیہ میں کی گئی ہے، تاہم اس فلم کے کچھ حصے انڈیا کے پنجاب کے چندی گڑھ اور پاکستانی پنجاب کے علاوہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں بھی فلمائے گئے ہیں۔
عمران عباس نے کہا کہ فلم کے بارے میں کوئی پیشن گوئی تو نہیں کی جاسکتی ہے، کیونکہ بڑے سے بڑے اداکاروں کی فلمیں بھی ناکام ہوجاتی ہیں، اس لیے وہ مختلف بات ہے۔
’مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے بالی وڈ کی پہلی سی جی آئی فلم کریچر میں کام کیا اور پھر امراؤ جان کے ہدایت کار مظفر علی کی فلم جانثار میں کام کیا جو ایک مخصوص طبقے کے لیے بنائی گئی تھی۔‘
فلم جانثار مظفر علی نے امراؤ جان کے بعد پہلی فلم بنائی تھی جس کے ذریعے وہ انگریزوں کے زمانے کا ماحول دکھانا چاہتے تھے، عمران عباس نے بتایا کہ وہ صرف انہیں کی ساتھ کام کرنا چاہتے تھے اور کہا تھا کہ انتظار بھی کرنا پڑا تو کرلیں گے۔