روینہ ٹنڈن کی سہیلیوں کی خوشی کا کوئی عالم نہیں تھا۔ محسوس تو ایسا ہو رہا تھا کہ جیسے روینہ کو نہیں ان کی سہیلیوں کو یہ پیش کش ہوئی ہے۔
بمبئی کے مٹھی بائی کالج کا کیفے تھا جہاں روینہ سہیلیوں کے جھرمٹ میں تھیں۔ وہ پہلے کئی بار سہیلیوں کوے ملنے والی فلمی پیش کشوں کے متعلق بتا چکی تھیں لیکن اس دفعہ جو جوش و خروش تھا انہوں نے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔
روینہ، ہدایت کار اور پروڈیوسر روی ٹنڈن کی بیٹی ہونے کے باوجود ہمیشہ سے چاہتی تھیں کہ وہ جو کام کریں والد کے بغیر ہی ہو۔
کئی بار والد نے دبے لفظوں میں کہا کہ اگر انہیں فلموں میں اداکاری کرنی ہے تو وہ بتا دیں تاکہ وہ سرمایہ کاری کر سکیں۔
تاہم روینہ ہر بار معذرت کر لیتیں۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ اگر وہ واقعی باصلاحیت ہیں تو والد کے علاوہ کوئی اور ان کی خدمات حاصل کرے تاکہ یہ تاثر قائم ہو کہ وہ کسی سہارے کے بغیر اپنے بل بوتے پر کھڑی ہوئی ہیں۔
یعنی روینہ اپنی الگ پہچان بنانے کی خواہش رکھتی تھیں۔ اسی لیے انہوں نے فارغ وقت میں ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں ملازمت اختیار کی، جس کے پلیٹ فارم سے انہوں نے مختلف کمرشلز میں کام کیا۔
صرف 19 برس کی ہونے پر ان کے چہرے کی شادابی اور دلکشی اپنی مثال آپ تھی۔ کئی کمپنیوں کی خواہش یہی ہوتی کہ ان کی مصنوعات کی تشہیر روینہ ہی کریں۔
اسی عرصے میں ان کو پروڈیوسر جی پی سپی کی فلم ’پتھر کے پھول‘ کی پیش کش ہوئی۔ جی پی سپی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا۔
انداز، سیتا گیتا، شعلے، شان اور ساگر جیسی فلموں کے پروڈیوسر، جن کے ساتھ کام کرنے کا ہر اداکار اور اداکارہ کا سپنا ہوتا۔
لیکن روینہ کے لیے یہ کشش کوئی معنی نہیں رکھتی تھی بلکہ ان کو ملنے والی پیش کش میں سلمان خان کا نام خاصی اہمیت رکھتا تھا۔
یہ وہ دور تھا جب سلمان ’میں نے پیار کیا‘ میں کام کر کے راتوں رات سپر سٹار بن چکے تھے۔ صنف نازک چاہے کسی بھی عمر کی ہو ان کے دل کی دھڑکن کوئی اور نہیں سلمان خان ہی تھے۔
لڑکیاں تو جیسی ان کی دیوانی تھیں۔ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہر کوئی بے چین رہتا۔ یہی وجہ تھی سلمان خان کی ہیروئن بننے کی پیش کش پر روینہ کی جیسی نیند اڑ گئی تھی۔
تجسس تو انہیں اس بات کا تھا کہ جب وہ اپنی سہیلیوں کو بتائیں گی تو ان کا ردعمل کیا ہوگا کیونکہ اس سے پہلے ملنے والی ہر پیش کش کا علم ان کی سہیلیوں کو تھا اور انہیں اس بات پر غصہ آتا کہ وہ ہر پیش کش پر انکار کیوں کر دیتی ہیں۔
’پتھر کے پھول‘ میں سلمان کی ہیروئن بننے کی خوش خبری جب انہوں نے سہیلیوں کو دی تو وہ کم و بیش چیخ اٹھیں۔ سب کا اصرار تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے اس پیش کش کو مسترد نہ کیا جائے۔
کالج کیفے میں بیٹھیں ان سہیلیوں کا کہنا تھا اگر وہ اس فلم میں کام کریں گی تو ان کا بھی بھلا ہو جائے گا۔ روینہ نے حیرت سے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو سہیلیوں کا کہنا تھا کہ جب فلم کی عکس بندی ہوگی تو انہیں موقع ملے گا سلمان خان کو قریب سے دیکھنے کا۔
اب یہ روینہ پر ہوگا کہ وہ سیٹ پر ان سہیلیوں کو سلمان سے ملاقات کا موقع دیں۔ روینہ کا دل خود اندر سے مچل رہا تھا کہ وہ اگر فلم کیریئر شروع کر رہی ہیں تو یہ کتنا زبردست ہوگا کہ ان کا پہلا ہیرو سلمان خان ہو جس پر دنیا فدا ہے۔
پھر ان کے ’پتھر کے پھول‘ میں کام کرنے سے ان کی سہیلیوں کا فائدہ ہو جائے گا۔ اسی لیے سہیلیوں کی فرمائش اور اپنی خواہش پر انہوں نے ’پتھر کے پھول‘ میں کام کرنے کی حامی بھرلی۔
انہیں خوشی اس بات کی بھی تھی کہ وہ فلموں میں متعارف اپنے والد کی بجائے کسی اور پروڈکشن ہاؤس کے ذریعے ہو رہی ہیں۔
اب اس بات کا توعلم انہیں بعد میں ہوا کہ فلم ’پتھر کے پھول‘ صرف اعلان تک محدود تھی کیونکہ ’میں نے پیار کیا‘ کی نمائش کے 11 ماہ تک سلمان خان کو کسی فلم کی پیش کش نہیں ہوئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسے میں سلمان کے والد سلیم خان نے جی پی سپی سے گزارش کی تھی کہ وہ ان کے بیٹے کو لے کر کسی فلم کا بس اعلان کر دیں۔
اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ جی پی سپی کا نام دیکھ کر دوسرے فلم ساز اور ہدایت کاروں کی نظر کرم سلمان خان پر پڑے گی۔ سلمان کو واقعی اس فرضی فلم کا بڑا فائدہ ہوا۔
انہیں دھڑا دھڑ فلمیں ملنے لگیں۔ اب جی پی سپی نے سوچا کہ وہ کیوں نہ خود اس مقبولیت اور شہرت کا فائدہ اٹھائیں۔ اسی لیے انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ ’پتھر کے پھول‘ بنانے کی تیاری کی اور پھر روینہ کا انتخاب عمل میں آیا۔
روینہ جب ’پتھر کے پھول‘ کی عکس بندی میں مصروف ہوتیں تو ان کی سہیلیاں کبھی نہ کبھی سیٹ پر ہوتیں جو سلمان کے ساتھ تصاویر بھی بنواتیں۔
پھر فروری 1991 میں جب ’پتھر کے پھول‘ نمائش ہوئی تو اس نے سینیما گھروں میں تہلکہ مچا دیا۔ یہ ’میں نے پیار کیا‘ کے بعد سلمان خان کی دوسری فلم تھی۔
فلم میں غیر معمولی اداکاری دکھانے پر روینہ کو اگلے سال ’ فیس آف دی ایئر‘ کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔
اس فلم کے بعد روینہ کے فلمی سفر کا ایک خوشگوار دور شروع ہوا جنہوں نے ہر نوعیت کے کردار نبھائے۔
دل والے، انسانیت، انداز اپنا اپنا، مہرہ، میں کھلاڑی تو اناڑی، بڑے میاں چھوٹے میاں، شول، ابھے اور کے جی ایف چیپٹر2 روینہ ٹنڈن کی مشہور فلمیں ہیں۔
ان دنوں روینہ ویب سیریز میں زیادہ نظر آ رہی ہیں بالخصوص حال ہی میں پیش کی جانے والی ویب سیریز ’کرما کالنگ‘ کو بھی پسند کیا گیا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔