سندھ کے شہر گھوٹکی میں اتوار کی شام ایک نجی کالج کی گیارہویں جماعت کے طالب علم محمد ابتشام نے الزام عائد کیا کہ ان کے کالج کے پروفیسر نوتن لال کلاس میں توہین مذہب کے مرتکب ہوئے۔ ان کے والد عبدالعزیز خان کی درخواست پر گھوٹکی کے اے سیکشن تھانے کی پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔
اس اطلاع پر شہر بھر میں کشیدگی پھیل گئی اور ہزاروں افراد نے دھرنا دے کر سندھ اور پنجاب کو ملانے والی قومی شاہراہ بلاک کردی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ توہین مذہب کے مرتکب ہندو پروفیسر کو گرفتار کیا جائے۔
پولیس کی یقین دہانی پر رات بھر جاری رہنے والا دھرنا ختم ہوگیا۔ بعد میں پولیس نے ہندو پروفیسر نوتن لال کو گرفتار کرلیا۔
اتوار کی صبح سینکڑوں مشتعل افراد نے شہر پر دھاوا بول دیا اور حملہ کرکے سکول میں توڑ پھوڑ کے بعد ایک ہندو مندر پر حملہ کرکے وہاں بھی توڑ پھوڑ کی۔ شہر میں پولیس اور رینجرز تعینات کردی گئی۔ واقعے کے خلاف مقامی ذی فہم مسلمانوں نے بڑی تعداد میں توڑ پھوڑ سے متاثرہ مندر میں پہنچ کر اظہارِ یکجہتی کیا اور ہندوؤں کو یقین دلایا کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی متاثرہ ہندوؤں کے حق میں پوسٹس وائرل ہوگئیں۔ بعد میں پولیس نے سکول اور مندر پر بلوا کرنے والوں کے خلاف تین ایف آئی آر درج کرلیں۔
ایس ایس پی گھوٹکی ڈاکٹر فرخ لنجار نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلی فون پر بتایا کہ مندر پر حملہ کرنے اور توڑ پھوڑ کرنے میں ملوث 45 لوگوں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے جو توہین مذہب کی دفعہ ہے۔ ’مندر پر حملہ کرنے والے محلے کے لوگ تھے جن کی شناخت ہوگئی ہے اور ان میں سے آٹھ لوگوں کی گرفتاری بھی ہوچکی ہے جبکہ باقی دو ایف آئی آر شہر میں توڑ پھوڑ کرنے اور قومی شاہراہ کو بلاک کرنے کے جرم میں ایک سو سے زائد افراد کے خلاف درج کی گئی ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو پوسٹ میں الزام لگانے والے طالب علم محمد ابتشام نے کہا تھا کہ ہندو استاد نے کوئی گستاخی نہیں کی ہے۔ اس بارے میں سوال کرنے پر ڈاکٹر فرخ لنجار نے کہا کہ ’اس اطلاع کے بعد میں خود محمد ابتشام سے ملا اور انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی بات پر اب بھی قائم ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے ایسا کوئی ویڈیو بیان جاری نہیں کیا۔ کسی نے ان کی جعلی آئی ڈی بنا کر ایسا میسج پوسٹ کیا ہے۔‘
دو دن گزرنے کے باوجود شہر میں اب بھی کشیدہ صورت حال ہے اور مقامی ہندو آبادی ڈر کے مارے ابھی تک گھروں تک محدود ہے۔
سوموار کی صبح سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ ’اریسٹ میاں مٹھو‘ (میاں مٹھو کو گرفتار کرو) ٹرینڈ کرنے لگا۔ اس میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لوگوں نے الزام عائد کیا کہ گھوٹکی کی درگاہ بھرچُونڈی شریف سے منسلک سیاستدان میاں مٹھو گھوٹکی کے ہندوؤں پر بلوا کرانے، مندر میں توڑ پھوڑ کرانے اور توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے کے ذمہ دار ہیں۔ صارفین اپنی پوسٹس میں ان کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے۔
سوشل میڈیا صارفین نے میاں مٹھو کی وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ساتھ لی گئی تصاویر شئیر کرتے ہوئی لکھا کہ انہیں ریاست کی پشت پناہی حاصل ہے اس لیے انہیں گرفتار نہیں کیا جا رہا۔
گھوٹکی میں جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے یا کسی ہندو لڑکی کے تبدیلی مذہب کا مسئلا ہوتا ہے تو سوشل میڈیا پر یہ مطالبہ سامنے آتا ہے کہ میاں مٹھو کو گرفتار کیا جائے۔
آخر میاں مٹھو کون ہیں؟
سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر سے 119 کلومیٹر دور اور سندھ، پنجاب کی سرحد سے 22 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ضلع گھوٹکی کا ایک شہر ہے بھرچُونڈی شریف، جو تاریخی درگاہ عالیہ بھرچُونڈی شریف کے نام سے منسوب ہے۔ یہ درگاہ دو سو سال پُرانی بتائی جاتی ہے۔ تحریک آزادی کے ہیرو اور امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی جو سیالکوٹ کے قریب ایک گاؤں ’چیانوالی‘ ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے انھوں نے 1888 میں سولہ سال کی عمر میں اسی درگاہ عالیہ بھرچُونڈی شریف کے پیر حضرت حافظ محمد صدیق بھر چونڈی کے ہاتھ پر بیعت کرکے اسلام قبول کیا تھا۔ میاں مٹھو کا خاندان اس درگاہ کا متولی ہے۔
بھرچونڈی سندھی ذات کے سمہ خاندان کی مختلف گوت میں سے ایک ہے، جنہیں سمہ یا سمیجو بھی کہا جاتا ہے جو ایک سماٹ قبیلہ ہے۔ سندھ میں بلوچ نژاد سندھی اور سماٹ رہتے ہیں۔ اس خاندان کا تعلق سمیجو ذات کی جس شاخ سے ہے اسے بھرچونڈ کہا جاتا ہے۔ اس نسبت سے میان مٹھو کا خاندان بھرچُونڈی کہلاتا ہے۔
میاں مٹھو کا پورا نام میاں عبدالحق ہے اور ان کی عرفیت میاں مٹھو یا میاں مٹھا ہے۔ ان کے والد میاں عبدالرحمان عرف بھورل سائیں تقسیمِ ہند سے پہلے شمالی سندھ کے بااثر شخصیت سمجھے جاتے تھے اور اس وقت کی سندھ اسمبلی سے منسلک شمالی سندھ کے سیاستدانوں میں ان کا بڑا اثر تھا۔
ضلع گھوٹکی کے رہائشی، نامور تجزیہ نگار اور سندھ ٹی وی کراچی کے اینکر پرسن فیاض نائچ کے مطابق ’میاں بھورل سائیں کا سندھ میں بڑا اثر تھا اور جب سندھ اسمبلی میں پاکستان کی قرارداد پیش کرنے والے سیاستدان جی ایم سید نے قرارداد پاکستان کے لیے سیاستدانوں کو قائل کرنے کا ٹاسک میاں بھورل سائیں کو دیا تو انھوں نے وہ ٹاسک مکمل کیا اور اکثر سیاستدان ان کی وجہ سے قرارداد کی حمایت کرنے لگے تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’جب سکھر میں میں مندر- منزل گاھ کا مشہور واقعہ ہوا تھا، تب جی ایم سید نے مدد کے لیے میاں بھورل سائیں کو بلایا تھا اور ان کے بیٹے عبدالرحیم کو بعد میں مقامی ہندوؤں نے مارا پیٹا بھی تھا۔ جس کے بعد مشہور راگی کنور بھگت کو بھی قتل کیا گیا تھا۔‘
ان کے والد کی وفات پر جب ان کے سوتیلے بھائی میاں عبدالرحیم کو گدی نشین بنایا گیا تو میاں مٹھو نے شدید اعتراض کیا۔ بعد میں جب میاں عبدالرحیم قتل ہوگئے تو ان کے قتل کا الزام میاں مٹھو اور ان کے سگے بھائیوں پر لگا۔ جس کے بعد میاں مٹھو اپنے بھائیوں میاں اچھل اور میاں شمن کے ساتھ بھرچونڈی سے نقل مکانی کرکے ڈہرکی ریلوے سٹیشن کے پاس رہنے لگے۔ لوگ انھیں سٹیشن والے پیر کہا کرتے تھے۔ ان کو بھرچونڈی کی درگاہ پر آنے کی اجازت نہیں تھی۔
بعد میں حروں کے روحانی پیشوا شاہ مردان شاہ عرف پیر پگاڑو نے سوتیلے بھائیوں میں صلح کرائی تب میاں مٹھو کو درگاہ جانے کی اجازت ملی۔
ان کے خاندان کا سیاست سے تعلق نہیں تھا مگر ضیا الحق دور میں ہونے والے غیر جماعتی بلدیاتی الیکشن میں میاں مٹھو نے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوکر ڈہرکی کے ٹاؤن چیئرمین بن گئے۔ بعد میں جب بے نظیر بھٹو جلا وطنی سے واپس آئیں تو 1988 کے الیکشن میں گھوٹکی کے طاقتور مہر خاندان کے مقابلے میں انہوں نے پارٹی ٹکٹ میاں مٹھو کو دیا اور سیاسی اثر نہ ہونے کے باوجود میاں مٹھو نے شمالی سندھ کے طاقتور ترین سمجھے جانے والے مہر خاندان کے مہشور نام غلام محمد خان مہر کو تاریخی شکست دی۔
میاں مٹھو پی پی پی سے وابستہ رہے مگر بینظیر بھٹو نے انھیں 1990 اور 1993 کے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ نہیں دیا۔ حتیٰ کہ 20 سال تک انہیں الیکشن میں پارٹی ٹکٹ نہیں مل سکا۔ بعد میں جب مہر خاندان ناراض ہوکر پرویز مشرف سے مل گیا اور 2002 میں علی محمد خان مہر کو وزیراعلی سندھ بنادیا گیا۔ 2008 کی الیکشن میں بینظیر بھٹو نے انھیں پارٹی ٹکٹ دیا کہ وہ پی پی پی سے ناراض رہنمائوں کی جانب سے بنائے گئے نئے گروپ پی پی پی پیٹریاٹ کے ٹکٹ ہولڈر سردار خالد احمد خان لُنڈ کے خالف الیکشن لڑیں اور اس الیکشن میں میان مٹھو نے خالد احمد کو شکست دی تھی۔
اس طرح انھوں نے سیاسی اثر نہ ہونے اور روائتی سردار نہ ہونے کے باجود ضلع گھوٹکی کے طاقتور ترین دو اہم خاندانوں بشمول مہر خاندان اور لُنڈ خاندان کو سیاسی طور پر شکست دی۔
وہ الیکشن جیت گئے۔ ان کے قومی اسمبلی میں ہونے کے دوران گھوٹکی سے ایک ہندو لڑکی رنکل کماری غائب ہوگئیں، جنہیں بعد میں ایک پریس کانفرنس میں ظاہر کیا گیا کہ وہ میاں مٹھو کے پاس ہیں اور انہوں نے اسلام قبول کرکے ایک مسلمان لڑکے سے شادی کرلی ہے۔ اس دوران رنکل کماری کیس کی سماعت کے دوران میاں مٹھو کے لوگوں نے جشن کے طور پر شہر میں ریلی نکالی اور عدالت کے احاطے میں بڑی تعداد میں ہتھیاروں کی نمائش بھی کی۔
اس کے بعد رنکل کماری کے کراچی میں رہنے والے ماموں نے اس کیس کو بغیر ڈرے نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی کوریج دلوائی اور سماجی تنظیموں کے ساتھ کراچی میں اس واقعے کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے۔ ان مظاہروں میں لوگوں نے الزام عائد کیا کہ میاں مٹھو ہندو لڑکیوں کے اغوا میں ملوث ہیں اور زبردستی ان کے مذہب تبدیل کرواتے ہیں۔
ایک ملاقات میں میاں مٹھو نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے مجھے بتایا تھا کہ وہ کبھی ایسا نہیں کرتے مگر چونکہ وہ ایک درگاہ سے منسلک پیر ہیں اور کوئی بھی ہندو ان کے پاس آتا ہے اور مذہب تبدیل کرنے کا کہتا ہے تو وہ انکار نہیں کرسکتے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے پاس ہر سال دو سو سے زائد ہندو آتے ہیں اور اسلام قبول کرتے ہیں۔
بعد میں جب سوشل میڈیا کا دور آیا تو لوگوں نے کھل کر ان کی مخالفت کی جس کے باعث پیپلز پارٹی نے ان کی پارٹی رکنیت ختم کردی۔ وہ پی ٹی آئی میں جانا چاہتے تھے مگر سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مخالفت کے باعث پی ٹی آئی نے بھی انہیں پارٹی میں شامل نہیں کیا اور اب جب بھی گھوٹکی میں ہندوؤں کے متعلق کوئی واقعہ ہوتا ہے تو سوشل میڈیا پر ان کی گرفتاری کی بات کی جاتی ہے۔