اقوام متحدہ کے عہدیداروں اور غزہ میں زمین پر موجود امدادی کارکنوں نے بھوک اور غذائی قلت کے باعث ’کاغذ کی طرح کمزور‘ بچوں کا حوالہ دیتے ہوئے محصور علاقے میں ’قحط سے ظالمانہ موت‘ کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب قطر میں ہونے والے مذاکرات کے دوران فائر بندی کے حوالے سے بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
اسرائیل کی کئی مہینوں سے جاری جارحیت کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر کو ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں فوری فائر بندی کا مطالبہ کیا گیا۔
حماس نے فائر بندی کے معاہدے کی تازہ ترین تجویز کو مسترد کر دیا ہے کیونکہ وہ مستقل جنگ بندی پر ہی کوئی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ لڑائی میں صرف ایک ’عارضی توقف‘ پر غور کرنے کو تیار ہے۔
چھ ماہ کی جنگ کے بعد امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ 11 لاکھ فلسطینیوں کے لیے وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے جو یا تو قحط کے دہانے پر ہیں یا پہلے ہی ایسے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
غزہ میں یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر نے پٹی کے شمال کے ایک ہسپتال میں ’کاغذ جیسے کمزور‘ بچوں اور غذائی قلت کی شکار ماؤں سے پیدا ہونے والے کم وزن بچوں سے بھرے انکیوبیٹروں کو دیکھنے کا اپنا تجربہ بیان کیا۔
جیمز ایلڈر نے بتایا: ’زندگی بچانے والی امداد میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے۔ یہاں جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ میں نے ایسے بچوں کو دیکھا جن میں غذائی قلت اتنی شدید تھی کہ وہ ڈھانچے معلوم ہوتے تھے۔‘
اسرائیل کے سب سے خوفناک زمینی حملوں کا شکار ہونے والے شہر خان یونس کے قریب یورپین غزہ ہسپتال سے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے تجربہ کار انسانی ہمدردی کے ماہرین نے کہا کہ غزہ کی صورت حال ’ناقابل فہم‘ ہے۔
ان کے بقول: ’ایسے افراد کے لیے صرف ’پیپر تھِن‘ (کاغذ کی طرح پتلے) جیسے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) کی غزہ ٹیم کے سربراہ اروند داس نے کہا کہ ایسے بچے اور خواتین بھی ہیں، جن کے جسموں پر کوئی گوشت نہیں ہے اور (اسرائیلی بمباری میں) ان کے زخمی ہونے پر بحالی کا عمل مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’وہ اور ان کے ساتھی عام طور پر غذائی قلت کے شکار افراد کے لیے سپلیمنٹس اور ڈرپس کا انتظام کر سکتے ہیں لیکن ہمارے پاس ان کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘
ہسپتال میں ایمرجنسی میڈیکل ٹیکنیشنز (ای ایم ٹی) کے ساتھ کام کرنے والی ایک اینستھیٹسٹ ڈاکٹر کونسٹینٹینا ایلیا کریڈی نے غزہ کی صورت حال کو ’ناقابل تصور‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس ہسپتال کی اصل گنجائش صرف 200 بستروں کی تھی اور اس وقت یہاں ایک ہزار مریض ہیں۔ 22 ہزار کے قریب لوگ ایسے ہیں جو غزہ کے دوسرے حصوں سے بے گھر ہوئے ہیں اور انہوں نے راہداریوں اور ہسپتال کے اندر خیموں میں پناہ لی ہوئی ہے۔‘
ہسپتال کے آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر حسام بشیر نے کہا کہ میڈیکل سپلائی اتنی کم تھی کہ ان کے پاس بعض اوقات سرجری کے لیے پٹیوں تک کی کمی ہوتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان اور شام کے ساتھ ساتھ جنوبی سوڈان، سوڈان، وسطی افریقی ریاستوں اور عراق میں ہنگامی ردعمل کا انتظام کرنے میں دہائیاں گزارنے والے اروند داس نے کہا کہ انہوں نے حالیہ غزہ جیسی ’تباہی‘ اس سے پہلے دنیا میں کہیں نہیں دیکھی۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر فائر بندی ہو بھی جائے تو بھی اس ’شدید‘ بحران سے نمٹنے کے لیے غزہ تک رسائی کے تمام راستوں کو فوری طور پر کھولنے کی ضرورت ہوگی۔
اروند داس نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’میں نے سوچا تھا کہ میں سب سے بڑی تباہی اور بدترین حالات دیکھ چکا ہوں لیکن (غزہ کو) دیکھ کر میں اب یہ دعویٰ نہیں کر سکتا۔ میرا دل ٹوٹ رہا ہے۔‘
ان کے بقول: ’صورت حال تیزی سے خراب ہو رہی ہے۔ میں نے ایسا سنگین بحران دنیا میں کہیں اور نہیں دیکھا۔ جنگ کو فوری طور پر اور مستقل طریقے سے روکنا چاہیے۔ ہمارے پاس کھونے کا وقت نہیں ہے۔ یہ انسانیت کی مکمل ناکامی ہے۔‘
اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے اسرائیل پر غزہ کی امداد کو محدود کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اسے ممکنہ جنگی جرم قرار دیا ہے تاہم اسرائیل نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔
سات اکتوبر کو حماس کی کارروائی، جس میں تقریباً 1,200 افراد جان سے گئے اور 250 کے قریب قیدی بنائے گئے تھے، کے بعد سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔ حماس کے پاس اب بھی 134 قیدی موجود ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ 42 کلومیٹر طویل پٹی پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے 32 ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
اسرائیل کی اندھا دھند بمباری نے غزہ کی پٹی کے زیادہ تر حصے کو کھنڈرات میں بدل دیا ہے، جس کے بیشتر باشندے بے گھر ہو گئے اور بڑے پیمانے پر خوراک کا بحران پیدا ہو گیا۔
منگل کو ایک ماہر نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ اسرائیل کے اقدامات نسل کشی کے مترادف ہیں۔ انہوں نے دنیا کے ممالک سے اسرائیل پر فوری طور پر پابندیاں عائد کرنے اور ہتھیاروں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔
مقبوضہ علاقوں میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانی نے کہا کہ ’یہ یقین کرنے کے لیے معقول بنیادیں ہیں کہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کے جرم کے جینیوا کمیشن کی حد لاگو ہو چکی ہے۔‘
جینیوا میں اسرائیل کے سفارتی مشن، جس نے اس سیشن میں شرکت نہیں کی، نے ان کے نتائج کو مسترد کر دیا۔ اسرائیلی مشن نے کہا کہ ’سچائی تلاش کرنے کے بجائے یہ خصوصی نمائندے کمزور دلائل کو فٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو حقیقت کی مسخ شدہ شکل ہے۔‘
اقوام متحدہ کے کئی امدادی اداروں کے دعوؤں کے باوجود کہ اسرائیل ضروری امداد کو روک کر بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
لیکن اس پر غزہ تک امدادی رسائی کے مزید راستوں کو کھولنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس وقت غزہ کے جنوب میں دو زمینی گزرگاہیں کھلی ہیں اور شمال میں ایک بھی نہیں جہاں شہری خطرناک طریقوں سے فضا سے گرائی جانے والی اور جنوب سے بھیجی جانے والی امداد کی انتہائی کم ترسیل پر انحصار کرتے ہیں۔
اروند داس نے ہسپتالوں میں مریضوں سے بھری ہوئی آئی آر سی کی طبی ٹیموں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 30 ہزار بے گھر گروپ نے کہا کہ سات اکتوبر سے اسرائیلی فوج نے غزہ میں طبی تنصیبات اور میڈیکل سٹاف پر 400 سے زیادہ حملے کیے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ہر ایک ہسپتال متاثر ہوا ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کم از کم 340 ہیلتھ کیئر ورکرز اسرائیلی حملوں میں مارے گئے اور 160 سے زائد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
ایسے الزامات کی بھی اطلاعات ہیں کہ ہیلتھ کیئر ورکرز کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسرائیل شہریوں اور طبی عملے کو حملوں میں نشانہ بنانے اور تشدد کے الزامات کی بھی تردید کرتا ہے۔
اروند داس نے کہا کہ غزہ کے مرکز دیر البلاح میں انہوں نے اندرونی طور پر بے گھر ہونے والوں کے لیے ایک پناہ گاہ کا دورہ کیا، جو جنگ سے پہلے پیشہ ورانہ تربیت کا مرکز تھا اور جہاں صرف 500 افراد کو رکھنے کی گنجائش تھی لیکن انہوں نے دیکھا کہ اس کے اندر 80 ہزار اور باہر 30 ہزار لوگ موجود ہیں۔
ان کے بقول: ’یہاں ہر 700 لوگوں کے لیے ایک ٹوائلٹ تھا۔ ہر شخص کے پاس صرف 1.5 میٹر مربع جگہ تھی اور خواتین اس ہجوم میں اپنے بچوں کو جنم دینے پر مجبور تھیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ہیپاٹائٹس اور دیگر وائرل بیماریاں پھیل رہی ہیں اور یہ کہ پانی اور غذائیت کی کمی اب عام ہے۔
منگل کو اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے دفتر او سی ایچ اے نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے کی طرف سے شمالی غزہ میں خوراک کی ترسیل پر عائد پابندی کو ختم کرے۔ یو این آر ڈبلیو اے اقوام متحدہ کا سب سے بڑا ادارہ بھی ہے جو غزہ میں امداد فراہم کرتا ہے اور کام کرتا ہے۔
امدادی ایجنسی کو تنازع کو جاری رکھنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اسرائیل نے پیر کے روز کہا کہ وہ غزہ میں یو این آر ڈبلیو اے کے ساتھ کام کرنا بند کر دے گا۔ اس نے یو این آر ڈبلیو اے کے 13 ہزار عملے میں سے 12 پر حماس کے حملوں میں شامل ہونے کا الزام لگایا ہے۔
ایجنسی نے کہا کہ اسرائیل نے اسے بتایا ہے کہ وہ اب خوراک کے قافلوں کو شمالی غزہ جانے کی اجازت نہیں دے گا اور 21 مارچ سے ایسی درخواستوں کو مسترد کر دیا گیا ہے۔
یو این آر ڈبلیو اے نے یہ بھی کہا کہ بہت سے عطیہ دہندگان کی جانب سے فنڈنگ روکنے کے بعد مئی کے آخر تک اس کے پاس اپنے آپریشنز چلانے کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔
او سی ایچ اے کے ترجمان جینز لارکے نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی بریفنگ میں بتایا: ’یہ فیصلہ منسوخ ہونا چاہیے۔ جب آپ یو این آر ڈبلیو اے کے خوراک کے قافلوں کو روکتے ہیں تو آپ قانون کی ان بین الاقوامی دفعات پر عمل کرنے کا دعوی نہیں کر سکتے۔‘
دریں اثنا دوحہ میں جنگ بندی کے لیے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے تاہم ابتدائی اطلاعات کے مطابق حماس کے مستقل جنگ کے خاتمے کے مطالبے اور اقوام متحدہ کی قرارداد پر اسرائیل کے غصے سے فائربندی کا معاہدہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔
وہ قرارداد، جس میں غزہ میں قید تمام یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن اسے فائر بندی سے مشروط نہیں کیا گیا، کی اس وقت سلامتی کونسل سے منظوری ممکن ہوئی جب اسرائیل کا قریبی اتحادی امریکہ ووٹنگ سے غیر حاضر رہا۔
اس کے بعد حماس نے تازہ ترین تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب تک اسرائیل مزید مستقل فائر بندی پر راضی نہیں ہوتا، غزہ سے اپنی افواج کو واپس نہیں بلاتا اور عسکریت پسندوں سمیت سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا نہیں کرتا، وہ قیدیوں کو رہا نہیں کرے گا۔
اسرائیلی وزیر خارجہ نے منگل کو آرمی ریڈیو کو بتایا کہ یہ قرارداد حماس کی حوصلہ افزائی کے لیے اس بات کا اشارہ ہے کہ بین الاقوامی دباؤ سے اسے کسی رعایت کے بغیر جنگ ختم ہونے موقع مل جائے۔
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو، جنہوں نے غصے میں ایک اسرائیلی وفد کو واشنگٹن سے واپس بلا لیا، نے کہا کہ اس سے ثابت ہوا کہ حماس کسی معاہدے کے لیے مذاکرات جاری رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
کئی ہفتوں سے فریقین تقریباً 42 دنوں کی ممکنہ جنگ بندی پر بات چیت کر رہے ہیں، جس کے دوران سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کے بدلے تقریباً 40 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ لڑائی میں صرف ایک عارضی توقف پر غور کرنے کے لیے تیار ہے جب کہ حماس چاہتا ہے کہ کسی بھی معاہدے کا نتیجہ مستقل جنگ کے خاتمے پر ہو۔
نتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ حماس کے مطالبات ’فریب‘ پر مبنی ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی کسی معاہدے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ حماس نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ مذاکرات میں رکاوٹ ڈال رہا ہے جب کہ وہ اپنی فوجی کارروائی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ اینڈریو مچل نے اقوام متحدہ کی قرارداد کا خیرمقدم کرنے میں عالمی رہنماؤں کے ساتھ شمولیت اختیار کی جس میں جنگ بندی کا مطالبہ ایک ’اہم قدم‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ برطانیہ کی حکومت اس بات کو یقینی بنانے پر بھی زور دے رہی ہے کہ اس پر جلد سے جلد عمل درآمد کیا جائے۔
لیبر کے شیڈو وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے اسے غزہ میں لڑائی روکنے کی کوششوں میں ایک ’ٹرننگ پوائنٹ‘ قرار دیا۔
جیسا کہ اروند داس نے کہا کہ لڑائی کو فوری طور پر روکنا ہوگا اور بدترین تباہی سے بچنے کے لیے غزہ تک رسائی کے مقامات کو فوری طور پر کھولنا ہوگا۔
ان کے بقول: ’یہ انسانیت پر ایک داغ ہے۔ آپ کی سیاست کوئی بھی ہو، خواتین اور بچوں اور لوگوں کے اس طرح مرنے اور تکلیف میں مبتلا ہونے کے واقعات دیکھنا بہت تکلیف دہ ہے۔ میں نے یہ پہلے نہیں دیکھا۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent