خٹک قبیلے سے تعلق رکھنے والے خانزادہ اسفند یار خٹک کے لیے رقاص بننا آسان نہیں تھا۔ یہ پشتو کے عظیم شاعر خوشحال خان خٹک کی گیارہویں پشت سے ہیں۔
اسفندیار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کو رقص کرنے سے منع کیا جاتا تھا۔
’سب کہتے تھے کے کوئی عام خٹک رقص کرلے لیکن کیونکہ آپ ایک نواب گھرانے سے ہو، آپ نہیں کرو۔‘
لیکن اسفندیار نے ہار نہیں مانی۔ انہوں نے کامسیٹ یونیورسٹی سے بی بی اے کیا۔ اس کے بعد ایم بی اے کیا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کتھک کی کلاسز لیتے رہے۔
پہلے انہوں نے معروف رقاص صائمہ خوشنود سے تعلیم حاصل کی۔ پھر کلاسیکل رقص کی بہت بڑی استاد اندو مٹھا سے ٹریننگ لی۔
اسفند یار نے بتایا کہ چونکہ انہوں نے روایتی تعلیم حاصل کی تھی، اس وجہ سے خاندان کی طرف سے دباؤ کم تھا۔
’ہم رقاص کو تذلیل کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اور جو اس کا معاوضہ ہے، وہ بھی نہیں دینا چاہتے۔ کاش ایسا ہوتا کہ رقاص کے ساتھ پیٹ نہ جڑا ہوتا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ فنون لطیفہ سے معاشرے میں امن پھیلتا ہے۔
’رقص ہو گیا، شاعری ہوگئی، گلو کاری ہوگئی، جتنے بھی ایسے فن ہیں ان سے آپ اپنے منفی احساسات ایک مثبت طریقے سے ظاہر کر سکیں۔‘