یہ سینیما کے سب سے مشہور مناظر میں سے ایک اور فلم ’دی گریٹ سکیپ‘ میں ایک اہم لمحہ تھا۔
رچرڈ ایٹنبرو اور گورڈن جیکسن نے راجر بارٹلیٹ اور سینڈی میکڈونلڈ کا کردار ادا کیا ہے، جو آر اے ایف کے دو افسران ہیں اور جنگی قیدیوں کے کیمپ سے باہر نکلنے کے بعد فرانسیسی کارکنوں کے بھیس میں فرار ہو رہے ہیں۔
کوچ میں سوار ہونے کا انتظار کرتے وقت ان سے گیسٹاپو افسر سوالات پوچھتا ہے، جو ان کے ساتھ فرانسیسی زبان میں مخاطب ہوتا ہے۔
اس وقت سب کچھ ٹھیک رہتا ہے جب تک کہ میکڈونلڈ سیڑھیاں نہیں چڑھ جاتا، پھر جب افسر انگریزی زبان میں انہیں ‘گڈ لک‘ کہتا ہے۔
فرار ہونے والا پیچھے مڑتا ہے، مسکراتا ہے، اور جواب دیتا ہے، ’ تھنک یو۔‘ یہ خاموشی کا ایک خوف ناک لمحہ ہوتا ہے جس کے بعد افراتفری مچ جاتی ہے۔ بارٹلیٹ اور میکڈونلڈ بھاگ جاتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی پکڑے جاتے ہیں۔
ان کا انجام خوف ناک ہوا کیونکہ فرار ہونے والے 48 دیگر افراد کے ساتھ انہیں بھی ایڈولف ہٹلر کے براہ راست حکم پر گولی مار کر قتل کر دیا جاتا ہے۔
رواں ہفتے اس ’گریٹ سکیپ‘ کی 80 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے، جس میں سلیسیئن جنگل میں واقع سٹالاگ لفٹ تھری نامی کیمپ سے بڑی تعداد میں قیدیوں کے انخلا کا جشن منایا جاتا ہے۔
فرار کی منصوبہ بندی رچرڈ ایٹنبرو نے کی تھی، حالانکہ ان کا اصل نام راجر بوشیل تھا، جو ایک سکواڈرن لیڈر تھے جنہیں جنگ کے شروع میں مار گرایا گیا تھا، اور انہوں نے فرار ہونے کی متعدد کوششیں کی تھیں۔
بوشیل پیدائشی طور پر جنوبی افریقی تھے اور ان کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا۔
بیرسٹر، دلیر، سماجی شخصیت، پلے بوائے اور ماہر لسانیات بوشیل واضح طور پر اس قسم کے نہیں تھے جو جنگی قیدیوں کے کیمپ میں اپنی ایڑیاں ٹھنڈی کرتے ہوئے جنگ گزار دیتے۔
حقیقت میں بوشیل میکڈونلڈ نامی سکاٹش فرد کے ساتھ فرار نہیں ہوئے تھے، لیکن ان کا ساتھی برنارڈ شیڈاؤر نامی ایک فرانسیسی فری پائلٹ تھا۔
فلم کے مشہور منظر کی وجہ سے اکثر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جب دونوں افراد کو گرفتار کیا گیا تو انگلش میں دیے گئے اس جواب کا ذمہ دار شیڈاؤر تھا جس نے ان دونوں افراد کی بری قسمت پر مہر لگا دی تھی۔
تاہم، گیسٹاپو اور مختلف جرمن پولیس افسران کے برطانوی تفتیشی ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی بدولت آخر کار یہ بتانا ممکن ہے کہ راجر بوشیل کو کیسے پکڑا گیا تھا اور انہیں کیسے قتل کیا گیا۔
اتوار 26 مارچ، 1944 کی دوپہر تک بریک آؤٹ کے تقریبا 48 گھنٹے بعد بوشیل اور شیڈاؤر ایک ٹرین میں سوار ہو رہے تھے جو انہیں 80 میل مغرب میں فرانسیسی سرحد پر ساربروکن تک لے جاتی ہے۔
جب سے وہ سرنگ سے نکلے تھے، ان دونوں افراد نے تقریباً 500 میل کا سفر طے کر لیا تھا اور امید تھی کہ وہ اس سہ پہر کے وسط تک فرانس پہنچ جائیں گے اور جلد ہی مزاحمت سے رابطہ کریں گے۔
انہوں نے اچھی پیش رفت کی تھی لیکن جلد ہی ان کی قسمت بری ہونے لگی۔ ایک پولیس اہلکار اوپر آیا اور ان کے کاغذات چیک کیے اور کہا کہ وہ مطمئن نہیں۔
دوپہر ڈھائی بجے کے قریب ساربرکن پہنچنے کے بعد افسر نے ان افراد کو ٹرین سے اتارا اور انہیں ریلوے سٹیشن پر تعینات پولیس اہلکار فرٹز بینڈر کے پاس لے گئے جو پاس اور شناختی کاغذات چیک کرنے کے لیے تعینات تھے۔
بینڈر نے ان کے کاغذات کی جانچ پڑتال کی اور پایا کہ وہ درست نہیں تھے۔
اگرچہ افسران نے دعویٰ کیا کہ وہ بریسلاؤ سے چھٹیوں پر فرانس جاتے ہوئے فرانسیسی مزدور ہیں لیکن بینڈر نے دیکھا کہ ان کے کاغذات پر لیبر ایکسچینج کی مہر نہیں تھی۔
اس لیے بینڈر نے انہیں گرفتار کر لیا اور مقامی پولیس ہیڈ کوارٹر لے گئے۔ گیسٹاپو کے ایک ملازم گستاو پٹز کے مطابق بینڈر کے ان دونوں افراد کو گرفتار کرنے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ ان میں سے ایک نے بینڈر کے ایک سوال کے جواب میں ’اوئی‘ کہنے کی بجائے انگلش میں ’یس‘ کہا۔
چونکہ شیڈاؤر فرانسیسی تھا اور بوشیل کی زبان انگریزی تھی لہذا ایسا لگتا ہے کہ اگر یہ غلطی ہوئی تھی تو یہ خود بوشیل نے کی تھی۔
یہ واضح ہے کہ اچھی لسانی صلاحیت کے باوجود وہ تناؤ اور تھکاوٹ کے زیر اثر آ گئے ہوں گے۔
ان دونوں افراد کو بدھ 29 مارچ کی علی الصبح تک پولیس نے حراست میں رکھا تھا، جب انہیں افسران ایمل شلز اور لیوپولڈ سپین کا کردار ادا کرنے والے گیسٹاپو اور ڈرائیور والٹر بریتھاؤٹ کے حوالے کیا گیا۔
گیسٹاپو کے لوگوں نے قیدیوں کو اشارہ کیا کہ وہ گاڑی میں بیٹھ جائیں اور پھر انہیں ہتھکڑیاں لگانے کے لیے آگے بڑھے۔
بوشیل نے احتجاج کرتے ہوئے شلز کو جرمن زبان میں بتایا کہ ہتھکڑیاں لگانا ’ایک افسر کے شایانِ شان نہیں‘ لیکن شلز نے کہا کہ انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اس کے بعد سپین نے بوشیل اور شیڈاؤر کو مطلع کیا کہ انہیں جنگی قیدیوں کے کیمپ میں لے جایا جا رہا ہے۔
افسران کو پیچھے رکھا گیا تھا اور شلز ان کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے جبکہ سپین بریتھاؤٹ کے بغل میں سامنے بیٹھے تھے۔
اس مرحلے پر بوشیل اور شیڈاؤر سوچ رہے ہوں گے کہ انہیں جنگی قیدیوں کے کیمپ میں منتقل کرنے کے لیے گیسٹاپو کی ضرورت کیوں تھی-
ایک ایسا کام جو کریپو آسانی سے انجام دے سکتا تھا۔ صبح کا وقت بھی ایک منحوس علامت تھا۔ اگرچہ اس بات کی تصدیق کرنا ناممکن ہے لیکن بوشیل اور شیڈاؤر – اور خاص طور پر بوشیل – دونوں کو اس بات کا سخت شبہ تھا کہ انہیں ان کی موت کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔
آدھے گھنٹے تک گاڑی چلانے کے بعد شلز اور سپین نے بوشیل اور شیڈاؤر کو بتایا کہ وہ خود کو آرام دینے کے لیے گاڑی سے اتر سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بوشیل نے اپنی ہتھکڑیاں اٹھائیں اور شلز نے انہیں دونوں قیدیوں سے اتار دیا۔
اس کے بعد سپین نے انہیں متنبہ کیا کہ اگر انہوں نے فرار ہونے کی کوشش کی تو انہیں گولی مار دی جائے گی، جس کے خطرے کو اس حقیقت سے تقویت ملتی ہے کہ انہوں نے اور شلز دونوں نے اپنی پستول نکال لی تھی۔
بوشیل اور شیڈاؤر گاڑی سے پانچ میٹر پیچھے اور سڑک سے تقریباً دو میٹر کی دوری پر چلے گئے اور پیشاب کرنے لگے۔
اس کے بعد شلز اور سپین نے اپنی پوزیشن سنبھالیں اور تقریباً بیک وقت دونوں افراد کو ان کی پیٹھ میں گولی مار دی۔
شیڈاؤر کی فوری موت ہوگئی اور وہ منہ کے بل آگے گر گئے۔ تاہم، بوشیل اپنے دائیں طرف گرے اور منہ اوپر کی جانب سے کر کے تڑپنے لگے۔
شلز نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں زمین پر لیٹ گیا اور انہیں بائیں کنپٹی پر گولی مار دی، جس کے فوراً بعد موت واقع ہو گئی۔‘
اس طرح راجر بوشیل کی زندگی ختم ہو گئی۔ یقیناً ان کا قتل 49 دیگر اموات سے زیادہ المناک اور ہولناک نہیں تھا، لیکن پیشاب کرتے ہوئے پیٹھ میں گولی لگنے کی بے رحمی اور بے عزتی ایسی متحرک اور بہادر شخصیت کے لیے ایک افسوس ناک موت تھی۔
تاہم، جن لوگوں نے انہیں قتل کیا تھا، انہیں بھی اپنے کیے کی سزا ملی- شلز کو 1948 میں برطانویوں نے پھانسی دے دی، سپین ایک فضائی حملے میں مارے گئے اور بریتھاؤٹ کو عمر قید کی سزا دی گئی۔
جنگ میں اچھی اموات بہت کم ہوتی ہیں۔ بوشیل اور ان کے ساتھی متاثرین ریپ کرنے والے یا لٹیرے نہیں تھے جو اس طرح کی سزا کی توقع کرتے، بلکہ وہ صرف نوجوان تھے جو آزادی کا احساس دوبارہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔
لہذا جب ہم اس کی 80 ویں سالگرہ منا رہے ہیں تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عظیم فرار صرف بہادری اور تخلیقیت کی کہانی نہیں ہے، بلکہ بڑے پیمانے پر قتل عام کی کہانی بھی ہے۔
© The Independent