صرف مشرف کا ٹرائل ہوا، باقی کسی کو نہیں پوچھا گیا: جسٹس جمال

چیف جسٹس نے کہا کہ ’جن لوگوں نے سوشل میڈیا پر قبضہ کیا ہوا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بے لگام ہیں ہمیں کوئی نہیں روک سکتا، جزا سزا کو بھی چھوڑیں، صرف سچ بولیں سزا جزا تو عمل ہے چلتا رہے گا

سپریم کورٹ آف پاکستان میں 7 مئی 2024 کو عدلیہ کے کام میں مبینہ مداخلت کے مقدمے  کی سماعت ہو رہی ہے (سپریم کورٹ آف پاکستان یوٹیوب)

عدالتی امور میں مبینہ مداخلت پر چھ ججوں کے خط پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’سپریم کورٹ کا سات رکنی بینچ توہین عدالت کی کارروائی نہیں کر سکا تو ہائی کورٹ ججز کیسے کریں گے؟ اب توہین عدالت کرنے والے تمام افراد ریٹائر ہو چکے ہیں۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’صرف پرویز مشرف کا ٹرائل ہوا ہے باقی کسی کو نہیں پوچھا گیا۔‘

صدر سپریم کورٹ نے عدالت میں سوال کیا کہ ’پرویز مشرف کی سزا سے عدلیہ نے حوصلہ کیوں نہیں پکڑا؟‘

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’ہم کہتے ہیں چلیں تھوڑی ہی صحیح لیکن سزا تو ہوئی۔‘

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمارے پاس تو توہین عدالت کا اختیار ہے بیوروکریسی کے پاس وہ بھی نہیں ہے۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے عدلیہ کے امور میں مبینہ مداخلت سے متعلق لکھے گئے خط کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی مزید سماعت منگل کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا لارجر بینچ  کر رہا ہے۔

مجھے بھی اپروچ کرنے کی کوشش کی گئی

چیف جسٹس نے وکلا سے کہا کہ ’عدلیہ کی آزادی ہمارا فرض ہے، آپ نے حلف نہیں لیا میں نے لیا ہے، بہت سارے دباؤ ہو سکتے ہیں ہمیں تنخواہ ملتی اسی کام کی ہے، جو غلطی ہو اس کی نشاندہی کا ہمیشہ کہتا ہوں۔‘ وکیل احمد حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’یو ایس اے سمیت مختلف مغربی ممالک میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ پاکستان کوئی پہلا ملک نہیں جہاں ایسا واقعہ ہوا ہو۔‘

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’چھ ججز کا خط ایک حقیقت ہے اس کو دیکھیں۔ ایسی صورت حال میں خوف کا تصور کیسے ہو گا۔‘ جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’ذاتی طور پر ہر جج اپنے آپ کو مضبوط کرلے کہ کوئی رابطہ کی کوشش نہ کرے یا پھر کوئی ڈر ہو کر کرے گا تو یہ ہو گا۔ اگر میں کمزور ہوں تو وہ کامیاب ہو جائے گا۔ ہم چھ جج بیٹھے ہیں کیا ہمیں اپروچ کی کوشش نہیں ہو گی۔ میں کہتا ہوں مجھے بھی اپروچ کرنے کی کوشش ہوئی۔‘

کمپرومائزڈ جج کو سسٹم سے باہر پھینکنا چاہیے

اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’مارکیٹ میں کوئی ایسی ٹیبلٹ دستیاب نہیں، جو مضبوط جج بنائے۔ ہمیں ایک سسٹم ہی بنانا ہو گا۔ ہم نے کمپرومائزڈ ججز کے خلاف کارروائی نہیں کی ورنہ آج یہ نہ ہوتا۔ کمپرومائز جج کو سسٹم سے ایک منٹ کے اندر باہر پھینکنا چاہیے۔ جس طرح سب وکیل ایک وکیل کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ہم جج کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔ جو جج حق کے لیے کھڑا ہو سب اس کے ساتھ ہوں تو کوئی اس کا کچھ نہیں کر سکتا۔‘

جسٹس جمال خان نے مزید کہا کہ ’آج ایک کے لیے مداخلت ہوتی کل دوسرے کے لیے۔ اس ایشو کو بھی تو دیکھنا ہے۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’اگر دروازہ ہی نہیں کھلتا تو وہ کیوں آئیں گے۔ ایک کی گردن کاٹنے سے یہ عمل نہیں رکے گا۔ نظام بنانا ہو گا۔‘

سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں ان کے لیے مداخلت کی جائے

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ہمارے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا یہ ملک آئین کے تحت چل رہا ہے یا نہیں۔ گذشتہ سماعت پر پوچھا گیا کہ خفیہ ادارے کس قانون کے تحت چل رہے ہیں، مداخلت ہو ہی کیوں؟ سیاسی جماعتیں مداخلت ختم نہیں کرنا چاہتیں۔ 2018 مداخلت سے کسی ایک سیاسی جماعت کو فائدہ ملا آج کسی اور کو مل رہا ہے۔ چھ ججز نے مشترکہ خط لکھا، اور حتمی ذمے داری تو وفاقی حکومت کی ہے۔ کسی مہذب معاشرے میں اب تک سزائیں دی جا چکی ہوتیں۔‘

اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ مداخلت ان کے لیے کی جائے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’فرض کریں کہ مجھے دھمکی آتی ہے کہ اس کیس کا یہ فیصلہ کر دیں۔ میں شکایت دائر کروں وہ بہتر ہے یا وہ اختیار جو میں خود استعمال کر سکتا ہوں۔ میں اپنے اختیارات کسی کمیشن کو کیوں دوں؟‘

عدالت نےعدلیہ میں مبینہ مداخلت کے کیس کی سماعت مزید دلائل کے لیے غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ ’کیس کی آئندہ تاریخ بینچ کی دستیابی کی صورت میں دی جائے گی۔‘

اس سے قبل چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ’اگر کوئی جج کچھ نہیں کر سکتا تو گھر بیٹھ جائے، ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہیے جو مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کرتے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’جن لوگوں نے سوشل میڈیا پر قبضہ کیا ہوا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بے لگام ہیں ہمیں کوئی نہیں روک سکتا، جزا سزا کو بھی چھوڑیں، صرف سچ بولیں سزا جزا تو عمل ہے چلتا رہے گا، یہاں پر ایک کمشنر تھے جنہوں جھوٹ بولا اور سارے میڈیا نے چلایا، کسی نے کمشنر کے جھوٹ سے متعلق نہیں پوچھا۔ تنقید اور جھوٹ میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے، سوشل میڈیا پر ایک بمباری ہوتی ہے۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس موقع پر کہا کہ ’سوشل میڈیا پر فیئر تنقید ہونی چاہیے، لیکن لوگوں کو گمراہ نہیں کرنا چاہیے۔‘

منگل کو چیف جسٹس کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ تعجب اس بات پر ہے کہ اتنے سارے وکیل ہیں لیکن عدلیہ کی آزادی کے لیے بھی ایک پیج پر نہیں، ہر کوئی اپنی بات کرنا چاہتا ہے، ہم نے جمہوریت کو فروغ دیا ہے، آپ اپنے منتخب نمائندوں سے اختلاف کر سکتے ہیں۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے بھی اس موقع پر کہا کہ ’بہتر ہوتا کہ پاکستان بار کونسل کے ممبر چھ وکلا الگ سے درخواست دینے کی بجائے پاکستان بار کونسل کے پلیٹ فارم سے ہی بات کرتے۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ آئندہ سماعت پر دلائل دیں گے۔ جبکہ ریاضت علی وکیل پاکستان بار کونسل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان بار کونسل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے معاملے پر جوڈیشل تحقیقات کرانا چاہتی ہے، ایک یا ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنا کر قصورواروں کو سزا دی جائے۔‘

جسٹس اطہر من اللہ کا خط

جسٹس اطہر من اللہ نے چھ ججوں کی خط پر گذشتہ سماعت سے متعلق حکم نامے میں اپنا اضافی نوٹ عدالت میں بیٹھے بیٹھے اپنے ہاتھ سے لکھا اور دستخط کیے۔

اٹارنی جنرل کو یہ تحریر پڑھنے میں مشکل ہوئی تو انہوں نے خود ہی نوٹ پڑھ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’عدلیہ میں سنگین حکومتی مداخلت پر وفاقی کو جواب دینا ہے۔  عدلیہ کی آزادی پر ان سنگین حملوں کو ہلکا نہیں لیا جا سکتا۔ ان واقعات پر کارروائی حتمی طور پر وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے۔ ہائی کورٹس نے واضح کر دیا کہ ایسے واقعات اب بھی جاری ہیں۔‘

شہزاد شوکت وائس چیئرمین سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے عدالت سے کہا کہ جب آپ براہ راست نشریات میں کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ مداخلت پر خاموش رہی تو اس سے عوام میں اچھا پیغام نہیں جاتا، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن مداخلت پر سزاؤں کا قانون لانے کی سفارش کرتی ہے، اس معاملے سے عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو دھچکا پہنچا ہے۔‘

وکیل پاکستان بار کونسل ریاست علی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے سنگین الزامات لگائے ہیں جو جرم کے زمرے میں آتے ہیں، جرم فوجداری نوعیت کا ہے ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔‘

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تمام ہائی کورٹس نے چھ ججز سے بھی زیادہ سنگین جوابات جمع کرائے ہیں، ایک ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ مداخلت آئین کے ساتھ کھلواڑ ہے، لگتا ہے پاکستان بار نے اپنی تجاویز ہائی کورٹس کے جوابات کو مدنظر رکھ کر نہیں تیار کیں، ایک ہائی کورٹ نے تو یہ کہا ہے آئین کو سبوتاژ کیا گیا، یہ مداخلت نہ فیض آباد دھرنا کیس سے رکی نہ کسی اور چیز سے، ججز نے ہائی لائٹ کیا کہ مداخلت ایک جاری سلسلہ اور رجحان ہے، آپ بتائیں ایسا کیا ڈر پیدا کیا جائے کہ یہ سلسلہ رکے؟

’اٹارنی جنرل خود مان چکے ہیں 2018 میں کیا کچھ ہو رہا تھا، 2018 اور 2019 میں ہائی کورٹ کے آزاد ججز کے لیے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کی ملی بھگت تھی۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ عدلیہ میں مداخلت ہو رہی ہے۔ مداخلت کا معاملہ چھ ججوں کے خط سے آگے بڑھ چکا ہے۔‘گذشتہ سماعت میں ہائی کورٹس نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرائے تھے، جبکہ عدالت نے تمام صوبائی بار ایسوسی ایشنز سے بھی تجاویز طلب کی تھیں۔

گذشتہ سماعت میں بینچ میں شامل جسٹس نعیم اختر افغان نے اٹارنی جنرل سے کہا تھا کہ ملک میں تین ایجنسیاں ہیں، انٹیلیجنس بیورو (آئی بی)، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کس قانون کے تحت بنی، ہمیں آئندہ سماعت پر بتائیں یہ ایجنسیاں کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں۔

عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے معاملے پر وفاقی و صوبائی وکلا بار ایسوسی ایشنز نے بھی فریق بننے کے لیے متفرق درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

عدلیہ میں مداخلت پر صوبائی بار ایسوسی ایشنز کی سپریم کورٹ کو تجاویز:

کراچی بار ایسوسی ایشن

عدلیہ میں مبینہ مداخلت کیس میں کراچی بار نے تجاویز سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں۔ تجاویز میں کہا گیا کہ ججز کو پابند بنایا جائے کہ مداخلت کی ہر کوشش سے سات دن میں مجاز اتھارٹی کو آگاہ کریں، مجاز اتھارٹی کو بھی پابند کیا جائے کہ رپورٹ کرنے والے ججز کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔

تجاویز میں کہا گیا کہ عدم تحفظ کے باعث بہت سے جج ایسے واقعات سے مجاز حکام کو آگاہ ہی نہیں کرتے۔ ’قریبی رشتہ دوریوں کے علاوہ ججز کو سرکاری حکام اور انٹیلی جنس نمائندوں کیساتھ ملنے سے اجتناب کرنا چاہیے، اگر سرکاری کام کے لیے حساس اداروں کے افسران سے ملنا ضروری ہو تو مجاز حکام کو آگاہ کیا جائے۔‘

مزید کہا گیا کہ ’مداخلت کے حوالے سے غلط بیانی کرنے والے ججز کی خلاف کارروائی کی جائے، شہریوں کی جاسوسی اور انٹلی جنس رپورٹس کی تیاری غیرقانونی ہے، حکومت کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حوالے سے قانون سازی کی ہدایت کی جائے، سپریم کورٹ چھ ججز کے خط کی آزادانہ انکوائری کرائے، عدالت ذمہ داران کا تعین کرکے سخت کارروائی کا حکم دے۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ جس نے عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت کا مدعا اٹھایا اور جس کے بعد سپریم کورٹ کے از خود نوٹس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی تجاویز سپریم کورٹ کو بھجوائیں۔

اس نے اپنی تجاویز میں کہا ہے کہ من پسند عدالتی فیصلوں کے حصول کو روکنے کے  لیے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا نفاذ ہائی کورٹس پر بھی کیا جانا چاہیے جس سے بینچ سازی اور مقدمات کو سماعت کے  لیے مقرر کئے جانے کے اختیارات کا غلط استعمال روکا جا سکے۔

اس کے علاوہ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی معاملے کا حل نہیں، نامناسب مداخلت کی شکایات پر پارلیمانی کمیٹی متبادل فورم کے طور پر کارروائی کر سکتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ

لاہور ہائی کورٹ نے اپنے جواب میں کہا کہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت ایک کھلا راز ہے اور ماضی میں سپریم کورٹ کی جانب سے یہ مداخلت روکنے کے لیے کیے گئے فیصلے بے اثر ثابت ہوئے۔

اس لیے سپریم کورٹ کو ایک نظام بنانے کی ضرورت ہے۔ انتظامیہ اور اس کی ایجنسیوں کی زیادہ مداخلت خصوصی عدالتوں مثلا انسداد دہشت گردی، اینٹی کرپشن اور احتساب عدالتوں میں دیکھی گئی ہے جہاں حکومت کی جانب سے ججوں کی تعیناتی اور ٹرانسفر کے ذریعے مداخلت کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔

’اس لیے خصوصی عدالتوں کے ججز کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کا اختیار ہائی کورٹ کے پاس ہونا چاہیے۔ ججوں کی ترقی میں خفیہ اداروں کی رپورٹوں پر انحصار ان اداروں کی عدلیہ میں مداخلت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اس چیز پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پشاور ہائی کورٹ

پشاور ہائی کورٹ نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ’پارلیمانی امور، سیاست اور عدالتی امور میں مداخلت ایک کھلا راز ہے، سیاسی مقدمات میں ججز ایجنسیوں کی مداخلت کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کچھ ججز نے شکایات کیں کہ خفیہ ایجنسیوں نے سیاسی مقدمات میں فیصلے اپنی مرضی کے کروانے کے لیے مداخلت کی، بات نہ ماننے کی صورت میں ججز کو افغانستان سے غیر ریاستی عناصر نے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں، ججز کو دھمکیاں ملنے کا معاملہ محکمہ انسداد دہشتگری کے ساتھ ساتھ اعلٰی سطح پر بھی اٹھایا گیا لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، اعلیٰ عدلیہ کے جج کو ڈرانے دھمکانے سے روکنے کے لیے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل کیا جانا چاہیے۔‘

ججز کے خط میں کیا شکایت کی گئی؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے 25 مارچ کو عدلیہ میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا۔ جس میں ججز نے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ’اینٹیلیجنس ایجنسیز عدلیہ کے کام میں مداخلت کر رہی ہیں۔ لہذا انٹیلی جنس اہلکاروں کے ججز کو دھمکانے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔‘

خط ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان سے رہ نمائی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم یہ خط سپریم جوڈیشل کونسل سے رہ نمائی کے لیے لکھ رہے ہیں، درخواست ہے انٹیلی جنس اہلکاروں کی مداخلت کےمعاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے، انٹیلی جنس اہلکاروں کی عدالتی امور میں مداخلت اور ججز کو دھمکاناعدلیہ کی آزادی کم کرتی ہے،ایسی ادارہ جاتی مشاورت معاون ہوسکتی ہے کہ کیسے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کیا جائے۔‘

ججز کے خط کے معاملے پر کیا ہوا؟

حکومت کی جانب سے چھ ججز کے خط میں لگائے الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی کی معذرت کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خط پر از خود نوٹس لے کر سماعت کے لیے سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

لیکن پہلی سماعت کے بعد ہی سات رکنی بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی کیس کی مزید سماعت سے معذرت کر لی تھی، جسٹس یحییٰ آفریدی نے ازخود کیس کے حوالے سے لکھا کہ ’6 ججز نے اپنے خط میں کوڈ آف کنڈکٹ ترتیب دینے بات کی ہے، انتظامی معاملے پر عدالتی کارروائی سے منفی تاثر جائے گا، سپریم کورٹ کو اس معاملے کو جوڈیشل سطح پر چلانے سے گریز کرنا چاہیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس آئین کے تحت انتظامی اختیارات موجود ہیں لیکن چیف جسٹس یا دیگر ججز نے اختیارات کو استعمال نہیں کیا، موجودہ کیس میں سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184/3 کا اختیار استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان