اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی طرف سے عدالتی امور میں مداخلت کے معاملے پر منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی صدارت میں فل کورٹ کا اجلاس دو گھنٹے کی کارروائی کے بعد اختتام پذیر ہو گیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اس سے قبل تمام ہائی کورٹس سے اس معاملے پر تجاویز طلب کی تھیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے پاکستانی فوج کے انٹیلی جنس ادارے (آئی ایس آئی) کی مبینہ مداخلت پر گذشتہ ماہ کے آخر میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھا تھا۔
سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں چیف جسٹس آفس نے تمام ججوں سے تجاویز طلب کی تھیں جبکہ اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز شرقی اور غربی کو بھی تجاویز جمع کروانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
تمام ججوں کی جانب سے اس معاملے پر تجاویز جمع ہونے کے بعد منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی فل میٹنگ بلائی گئی جس میں تمام تجاویز پر غور کیا گیا۔
تاہم دو گھنٹے کے اجلاس کے بعد کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی طرف سے لکھے گئے خط کے معاملے کا از خود نوٹس لے کر اپنے آرڈر میں تمام ہائی کورٹ کے ججوں سے اس معاملے پر تجاویز مانگی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے لیے سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا لیکن پہلی سماعت کے بعد ہی سات رکنی بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی نے کیس کی مزید سماعت سے معذرت کر لی تھی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ازخود کیس کے حوالے سے لکھا کہ ’چھ ججوں نے اپنے خط میں کوڈ آف کنڈکٹ ترتیب دینے بات کی ہے، انتظامی معاملے پر عدالتی کارروائی سے منفی تاثر جائے گا، سپریم کورٹ کو اس معاملے کو جوڈیشل سطح پر چلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس آئین کے تحت انتظامی اختیارات موجود ہیں لیکن چیف جسٹس یا دیگر ججوں نے اختیارات کو استعمال نہیں کیا، موجودہ کیس میں سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184/3 کا اختیار استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘
ازخود نوٹس کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت اب 30 اپریل کو ہو گی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے ازخود نوٹس کیس کے تحریری فیصلے میں اپنے اضافی نوٹ میں لکھا تھا کہ ’کٹہرے میں انتظامیہ ہے تو بارِ ثبوت بھی انتظامیہ پر ہے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ کی اس تحریر سے ایک نئی بحث نے جنم لیا کہ بارِ ثبوت الزام عائد کرنے والے پر ہو گا یا الزام کا سامنا کرنے والے پر؟
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں مزید لکھا تھا کہ ’خط لکھنے والے چھ ہائی کورٹ جج آواز اٹھانے والے جج ہیں، آواز اٹھانے والے ان ججوں کو مسائل کا سامنا نہیں ہونا چاہیے، فل کورٹ کے سامنے اب انتظامیہ کو ثابت کرنا ہو گا کہ اس کی جانب سے مداخلت نہیں ہوتی، کٹہرے میں انتظامیہ ہے اس لیے بار ثبوت بھی انتظامیہ پر ہے۔‘