کوئٹہ کے پرنس روڈ پر واقع سینما ’برباد ٹاکیز‘ کا اصل نام پربھات ٹاکیز تھا جسے ناخواندہ لوگ عرف عام میں برباد ٹاکیز کہا کرتے۔ سینما ہال میں عمارت کی بیرونی دیوار پرلکڑی سے بنے انگریزی زبان کے بڑے بڑے حروف کو عمودی شکل میں ترتیب دے کر ’پربھات‘ نام آویزاں کیا گیا تھا۔ آزادی کے بعد نئے مسلمان مالک نے حروف پی اور بی نکال کر نئی ترتیب کے ساتھ پربھات کو راحت میں تبدیل کر دیا اور اس طرح اس نام کو پاکستانی لبادہ اوڑھا دیا۔
اس سینما ہال میں ایک مرتبہ فلم نوراسلام کی نمائش جاری تھی جس میں یہودی کا روپ دھارے اداکاروں نے سکرپٹ کے مطابق کچھ مکالمے ادا کیے۔ اگرچہ ان کے رد میں بہت خوبصورت اور مدلل الفاظ میں مسلمانوں کا روپ دھارے اداکاروں نے بڑے پرجوش مکالمے ادا کئے تھے مگر یہودیوں کے ڈائیلاگز نے فلم بینوں کے جذبات کو برانگیختہ کر دیا۔
وہ جمعے کا دن تھا نماز جمعہ کے بعد ایک جم غفیر نے سینما پر ہلہ بول دیا۔ تسلی بخش توڑپھوڑ کے بعد مذکورہ فلم کی تمام ریلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے بعد ان ایماں کی حرارت والوں نے معاشرے کے ایک اور ناسور کو نیست ونابود کرنے کی خاطر سورج گنج بازار کے عقب میں واقع بازار حسن کا رخ کیا اور وہاں کے مکینوں کے زیرتصرف منقولہ سازوسامان کو مال غنیمت کا درجہ دے کر، نعروں کی گونج میں لحاف، گدیلا، سراہنا، تکیہ، چارپائی، نہانے کی بالٹی، لوٹا۔۔۔ غرض یہ کہ حسب استطاعت و ہمت جو کچھ جس کے ہاتھ لگا لے کر چمپت ہوا۔
کوئی ریڈیو، کوئی سارنگی، کوئی طبلہ بغل میں لیےتو کوئی سر پر ہارمونیم اٹھائے بھاگ لیا۔ بازار حسن پل بھر میں ویران ہو گیا۔ مکینوں کے کوچ کر جانے کے بعد پولیس نے بچا کھچا مال و متاع قبضہ سرکار میں لے کراپنی کارروائی کا آغاز کردیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک صاحب جو چلتا پھرتا سینما تھے
ایک صاحب جن کا تعلق درس و تدریس کے پیشے تھا انہیں دیوانگی کی حد تک ڈرامہ لکھنے پیش کرنے اور ہدایت کاری کا شوق تھا۔ وہ اپنی سائیکل کے ہینڈل سے کپڑے کا تھیلا لٹکائے رکھتے۔ راستے میں اگر کوئی واقف کار یا دور نزدیک کا دوست نظر آتا یہ فورا سائیکل سے اتر کر گرم جوشی سے اپنے نشانہ مشق سے بغل گیر ہوتے اور مسکراتے ہوئے نیم وا نظروں سے اسے دیکھتے اور کہتے بھئی بڑی عمر ہے آپ کی۔ ابھی ابھی آپ کی صورت آنکھوں کے سامنے تھی۔ دراصل میں نے حال ہی میں ایک بہت انوکھا یادگار ڈرامہ لکھا ہوا ہے۔ لو سنو۔۔۔
پھر تھیلے سے ڈرامے کا مسودہ برآمد کرتے اور وہیں سڑک پر کھڑے کھڑے ڈرامے کے ڈائیلاگ مع تاثرات کبھی باآواز بلند، کبھی سرگوشی میں، کبھی باپ کی رعب دار آواز میں، کبھی ولن کی للکار میں تو کبھی ہیروئن کی ملتجی آواز میں اور اگر مرحلہ المیہ ہو تو باقاعدہ سسکیاں لے کر۔۔۔
غرض یہ کہ ہر کردار کے مکالمے مکمل صوتی اثرات کے ساتھ اس خوبصورتی سے ادا کرتے کہ ’گشتی تھیٹر‘ کا سماں باندھ دیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ڈرامے میں مزاحیہ کردار کی اداکاری بھی مضحکہ خیز انداز میں کچھ اس طرح کرتے کہ مخاطب سمیت ان کے گرد لگے مجمعے کے لوگ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتے۔
مگر اس صورت حال کا منفی پہلو یہ ہوا کرتا تھا کہ مجمعے کے لوگ ان کی حرکات وسکنات کو حیرت و استعجاب سے دیکھتے اور نادان تماشائی ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے تو جواب ملتا ’لیونا (دیوانہ) ہے۔‘ لیکن وہ تنقیدی فقروں اور آوازے کسنے والوں سے بے نیاز اپنی پیشکش میں اس قدر مگن ہوتے تھے کہ ان کو پتہ بھی نہ چلتا کہ جس بندے کو یہ سب کچھ (تماشا) دکھانے کے لیے گھیرا تھا، وہ تو کب کا وہاں سے کھسک چکا۔
اس بدمزگی سے بچنے کے لیے انہوں نے طریقہ واردات بدل دیا۔ اب وہ اپنے شکار کو منت سماجت کرکے قریبی کیفے میں لے جاتے۔ وہاں صرف دو کپ چائے کے خرچے پر (جو چار آنے بنتا تھا) اس بے تقصیر اسیر کو ڈرامے کے اختتام تک حبس بے جا میں رہنا پڑتا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جب بھی ان کا کوئی واقف کار دور سے کسی سائیکل سوار کو ہینڈل پر تھیلا لٹکائے اپنی طرف آتے دیکھتا تو پھر یا تو وہ راستہ بدل دیتا، یا یوٹرن لے کر بھاگ جاتا۔ اگر واپسی کا راستہ مسدود پاتا تو کہیں قریبی دکان میں چھپ جایا کرتا اور خطرہ ٹل جانے کے بعد اپنی راہ لیتا۔