موسمیاتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقدار حد سے بڑھ جانے کے باعث موسمیاتی تبدیلی کی رفتار میں خطرناک تیزی آئی ہے، جس سے سمندری سطح میں اضافہ، برف کے پگھلنے کے ساتھ موسم کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور 2015 سے 2019 تک پانچ سال کا عرصہ کرہ ارض پر اب تک ریکارڈ کیے گئے گرم ترین سال ہیں۔
امریکی شہر نیو یارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں 21 ستمبر سے شروع ہونے والے ’کلائمٹ ایکشن اجلاس‘ کے دوران پیر کو عالمی موسمیاتی تنظیم کی جاری کردہ ’یونائیٹڈ ان سائنس‘ نامی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ صعنتی انقلاب سے پہلے والے دور کے مقابلے میں اب تک صرف0.2 ڈگری بڑھا تھا مگر ان پانچ سالوں (2015-2019) کے دوران درجہ حرارت خطرناک حد تک یعنی 2.2 تک بڑھ گیا ہے۔
کرہ ارض پر اب تک ریکارڈ شدہ کسی بھی عشرے کے مقابلے میں یہ پانچ سال (2015-2019) گرم ترین ہیں۔ اس کے علاوہ ان پانچ سالوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بھی ماضی کی نسبت تیزی آئی ہے۔
اس عرصے کے دوران جنگلات میں لگنے والی آگ کے باعث فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے اور ریکارڈ حد تک درجہ حرارت بڑھنے کے باعث جان لیوا ہیٹ ویو، سمندری طوفان اور سائیکلون بڑھ گئے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا 1993 سے سطح سمندر میں سالانہ اوسط سطح 3.2 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی، مگر پچھلے پانچ سالوں کے دوران یہ پانچ ملی میٹر تک پہنچ گئی ہے۔
رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ اس صدی کے آغاز سے گرین لینڈ کی برف پگھلنے میں تیزی دیکھی گئی جبکہ انٹارکٹیکا میں 1980 کے مقابلے میں پچھلی ایک دہائی میں چھ گنا زیادہ برف پگھلی۔
رپورٹ کے ساتھ جاری بیان میں عالمی موسمیاتی تنظیم کے سیکرٹری پیٹیری تالس نے کہا موسمیاتی تبدیلیاں کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے کس حد تک متاثر ہے؟
حال ہی میں عالمی ادارے ’جرمن واچ‘ نے اپنی 'کلائمٹ انڈیکس' رپورٹ میں 1998 سے 2017 تک موسمیاتی تغیر سے شدید ترین متاثر دس ممالک کی فہرست میں پاکستان کو آٹھواں سب سے زیادہ متاثر ملک قرار دیا۔ رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران پاکستان میں موسمیاتی تغیر کی وجہ سے 145 شدید موسمی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
جون 2019 میں عالمی موسمیاتی تنظیم کی جاری کردہ ایک اور رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بلوچستان کا شہر تربت اب تک ریکارڈ شدہ درجہ حرارت میں دوسرا گرم ترین شہر ریکارڈ کیا گیا، جہاں 28 مئی 2017 کو درجہ حرارت 53.07 ڈگری سینٹی گریڈ رہا۔
اسی طرح کویت کے شہر مطربہ کو دنیا کا گرم ترین شہر قرار دیا گیا تھا، جہاں 21 جون 2016 کو 53.09 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔
ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا موسمیاتی تبدیلیوں سے غیر محفوظ ہونے کا عالمی طور پر اعتراف کیا گیا ہے اور پچھلی ایک دہائی کے دوران موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید موسمیاتی واقعات بشمول سیلاب، قحط سالی، گلیشیئر پگھلنے سے بننے والی جھیلوں کے پھٹنے سے آنے والے سیلاب، سائیکلون اور ہیٹ ویو کے باعث نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان ہوا بلکہ ملکیتیں اور ملکی معشیت کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا، ’2010 کے سپر فلڈ کے دوران 1600 افراد کی موت ہوئی، 38 ہزار مربع کلومیٹر سے زائد کا علاقہ زیر آب آیا اور اس سیلاب سے دس ارب امریکی ڈالرز کا نقصان ہوا تھا، اسی طرح جون 2015 میں کراچی میں آنے والی ہیٹ ویو نے 1200 افراد کے جان لی۔‘
عالمی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی خاطر حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے تحریکیں بھی چل رہی ہیں۔ 20 ستمبر کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے کے لیے ایندھن کا کم استعمال اور موسمیاتی مہاجرین کی مدد کے مطالبات کے حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے دنیا بھر میں عالمی موسمیاتی ہڑتال کے تحت موسمیاتی مارچ کیے گئے۔
اس تحریک کی بنیاد 2018 میں سکول جانے کی بجائے سٹاک ہوم میں پارلیمان کی عمارت کے باہر ایک پلے کارڈ کے ساتھ اکیلے احتجاج کر کے دنیا بھر میں شہرت پانے والی سویڈن کی 16 سالہ گریٹا تھنبرگ نامی ایک لڑکی نے رکھی۔
رواں سال مارچ میں دنیا کے 150 سے زائد ممالک میں لاکھوں شہریوں نے، جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی، شرکت کرکے دنیا بھر کی حکومتوں کو پیغام دیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات کریں۔
اس حوالے سے پاکستان میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ سمیت کئی چھوٹے بڑے شہروں میں ہزاروں افراد نے ریلیاں نکال کر حکومت سے مطالبہ کیا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے ہنگامی بنیادوں پر اقتدامات کیے جائیں۔