جس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ’اب کی بار چار سو پار‘ نعرے کو انڈین ووٹرز نے بری طرح سے دھتکار دیا ہے، اسی طرح سے کشمیری ووٹرز نے دو سابق وزرائے اعلیٰ کو ہرا کر کشمیر کی مرکزی دھارے کی سیاست میں ایک بھونچال پیدا کیا ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے۔
پاکستان کی سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو اکثر اپنی تقریروں میں کہتی تھیں کہ ’جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے۔‘
اگر اس کی حقیقت دیکھنی ہو تو کشمیر کی سرزمین نے آج اسے ثابت کر کے دکھایا، جب یہاں کے ووٹروں نے پانچ برس کے محبوس رہنما انجینئیر رشید کو انتخابی جیت دلوا کر 80 برس پرانی جماعت نیشنل کانفرنس کے سربراہ، سابق وزیراعلیٰ اور سابق مرکزی وزیر برائے خارجہ امور عمر عبد اللہ کو ہرایا۔
خود شمالی کشمیر کے لاکھوں ووٹروں کو یقین نہیں ہو رہا ہے کہ انہوں نے آنکھ بند کر کے انجینئیر رشید کے 24 برس کے بیٹے کا ہاتھ کیسے تھاما، جنہوں نے آزادی یا آرٹیکل 370 واپس دلانے کا کوئی نعرہ نہیں دیا بلکہ محض اپنے والد کی رہائی کے لیے ووٹ مانگا۔
فوراً عوام کے جم غفیر نے نہ صرف اپنے پیسے سے انجینیئر رشید کی انتخابی مہم چلائی بلکہ عمر عبد اللہ کے ساتھ ساتھ علاقے کے ہر دلعزیز سیاست دان مقتول عبدالغنی لون کے صاحبزادے سجاد غنی لون کو، جنہوں نے چند برس پہلے وزیراعظم مودی کو اپنا بڑا بھائی قرار دیا تھا اور بی جے پی کی آشیرواد ان کے ساتھ تھی، انتخابی میدان میں بری طرح پچھاڑ دیا۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کو لوک سبھا کی تینوں نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جو تینوں نشستیں انہوں نے 2014 کے انتخابات میں ایک بڑے مارجن سے حاصل کر لی تھیں۔
بی جے پی کی مرکزی حکومت نے الطاف بخاری کی اپنی پارٹی سمیت پیپلز کانفرنس اور سابق مرکزی وزیر اور سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کی پارٹی پر شفقت کا جو ہاتھ رکھا تھا، اس ہاتھ کو لگتا ہے کہ ووٹروں نے کاٹ دیا ہے۔
ساتھ میں یہ پیغام بھی دیا ہے کہ جو بھی علاقائی پارٹی بی جے پی کی چھتر چھایا میں رہ کر کشمیری عوام سے ووٹ مانگے گی تو اس کا سیاسی وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا میں تامل ناڈو کی انا ڈی ایم کے ہو، پنجاب کی اکالی دل ہو یا کشمیر کی پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی ہو، بی جے پی کا سایہ پڑتے ہی ان کا زوال شروع ہو گیا اور یہ تمام جماعتیں اس وقت اپنا وجود تلاش کر رہی ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ نیشنل کانفرنس کے دو امیدواروں آغا روح اللہ اور میاں الطاف کو کشمیریوں نے کیوں ووٹ دیا جب کہ اس پارٹی کی پالیسیوں کو عوام نے آج کل شدید تنقید کا نشانہ بنا رکھا ہے، جس کا ثبوت عمر عبد اللہ کی ہار ہے۔
میرا عقیدہ ہے کہ دونوں سیاست دانوں کو ان کی اپنی شخصیت کی بل پر ووٹ ملے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کا اس میں معمولی عمل دخل ہے۔
آغا روح اللہ واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے تنہا پارٹی میں رہ کر اور پارٹی سے باہر بی جے پی کی پالیسیوں کی ابتدا سے مخالفت کی، جس کے باعث انہیں پارٹی سے کچھ عرصہ دور بھی رہنا پڑا۔
آغا روح اللہ کو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے اس لیے ووٹ دیا کہ وہ کھل کر پارٹی سیاست سے باغی ہو کر عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے رہے اور مصلحت پرستی سے بالاتر رہے ہیں، جو شاید ان کی پارٹی کے اصولوں کے برعکس بھی ہے۔
جنوبی کشمیر میں محبوبہ مفتی کے مقابلے میں میاں الطاف کی جیت کی ایک بڑی وجہ لاکھوں گجر اور پہاڑی ووٹ ہیں۔ دوسرا گذشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے خلاف ووٹ حاصل کر کے پھر اسی ہندوتوا پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنا، کشمیری اس بات کو ابھی تک بھولے نہیں ہیں۔ انہوں نے محبوبہ مفتی کو اپنے کیے کی سزا سنائی۔
بی جے پی نے ایک مقصد کے تحت نئی انتخابی حلقہ بندی اور ریزرویشن پالیسی تبدیل کر کے یہ مان لیا تھا کہ جنوبی کشمیر کی پارلیمانی نشست اس کی جیب میں ہے اور اسمبلی انتخابات میں یہ نشست اسے کشمیر کے اندر اپنی بنیاد قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔
مگر یہ شاید توقع نہیں تھی کہ نیشنل کانفرنس کے امیدوار میاں الطاف اس پورے علاقے میں ایک بڑے پیر کے طور پر مانے جاتے ہیں اور ان کے لاکھوں پیروکار گجر اور بکروال طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
بی جے پی نے یہاں ترپ کا کھیل کھیلا تھا مگر میاں الطاف کا بحیثیت امیدوار کھڑا ہونا الٹا وار ثابت ہوا۔
گو کہ انہیں جتوانے میں نیشنل کانفرنس کے ووٹروں کا عمل دخل بھی ہے مگر سب سے زیادہ ووٹ میاں الطاف کو ان کی مذہبی اور نسلی حیثیت کی بنا پر پڑے ہیں۔
اٹل بہاری واجپائی کے زمانے سے آج تک چاہے نیشنل کانفرنس ہو یا پی ڈی پی، جو بی جے پی کی مرکزی سرکار میں اتحادی رہی ہیں یا وہ نئی سیاسی جماعتیں جن میں اپنی پارٹی، پیپلز کانفرنس یا ڈیموکریٹک آزاد پارٹی شامل ہیں۔
کشمیری ووٹروں نے اپنے ووٹ کے استعمال سے ان سے بہترین انتقام لیا اور باور کروایا کہ جب تک آپ جموں و کشمیر میں دہلی سرکار کی نمائندگی کرنے کا ڈراما کرتے رہیں گے، عوام آپ کو دھتکارتے رہیں گے۔ جب یہ سیاسی جماعتیں دہلی میں جموں و کشمیر کی حقیقی نمائندگی کرنے لگیں گی، اس وقت دوبارہ ان سیاسی جماعتوں کے وجود اور اعتباریت پر غور کیا جاسکتا ہے۔ ورنہ بقول شاعر ؎
تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔