نریندر مودی کے سکول کے زمانے کے ایک استاد کہتے ہیں کہ مودی کو تھیئٹر کا بڑا شوق تھا لیکن وہ صرف مرکزی کردار ادا کرتے تھے۔ اگر انہیں ہیرو کا کردار نہ ملتا تو ڈرامے میں حصہ لینے سے انکار کر دیتے تھے۔
ایک اور کہانی بھی ہے جو مودی کے گاؤں والے سناتے ہیں اور جسے مودی میڈیا نے ہوا دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ وہ یہ ہے کہ ایک بار بچپن میں مودی نے مگرمچھوں سے بھرے ایک تالاب میں کود کر تالاب کے بیچوں بیچ بنے مندر پر جھنڈا لہرایا تھا۔
یہ دو چھوٹی سی جھلکیاں ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ مودی اپنے آپ کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور کس طرح سے اپنے آپ کو ہمیشہ اپنی کائنات کے مرکز میں رکھتے تھے۔
مودی نے بچپن سے یہ بات گرہ سے باندھ لی تھی کہ اپنے آپ کو کیسے مرکز میں رکھنا ہے، اور یہی چیز ہے جس نے انہیں انڈیا کی تاریخ کی طاقتور ترین، لیکن ساتھ ہی ساتھ متنازع ترین شخصیات میں ایک بنا دیا ہے۔
ایک طرف مودی کے کروڑوں چاہنے والے ہیں جو انہیں انڈیا کا نجات دہندہ اور مستقبل کی امید سمجھتے ہیں، تو ان کے مخالفین کی بھی کمی نہیں جو کہتے ہیں کہ مودی جی نے اپنی سیاست چمکانے کے لیے ملک کو کٹر مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر دیا ہے۔
ایک عام سے گھرانے سے تعلق رکھنے والا شخص انڈیا کی تاریخ کی طاقتور ترین شخصیات میں سے ایک کیسے بنا؟ آئیے جانتے ہیں کہ مودی نے اپنے آپ کو انڈیا کے سیاسی ڈرامے کا مرکزی کردار کیسے بنایا؟
مودی تقریر کرنے کے ماہر ہیں، اور تقریر میں بھی وہ وائرل ہو جانے والے فقرے بولنے پر مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی گرج دار آواز اور للکارنے کا انداز عام لوگوں کو بےحد بھاتا ہے اور لوگ انہیں عام اشرافیہ سے الگ اور عوام سے جڑا ہوا تصور کرتے ہیں۔
مودی نے بڑی محنت اور توجہ سے اپنا ایک الگ برانڈ بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اور جس طرح برینڈ والی کمپنیاں لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے کے لیے مختلف تشہیری مہمات چلاتی ہیں، ویسے ہی مودی باقاعدہ اپنی پبلسٹی کرتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ روایتی، ڈیجیٹل، اور سوشل میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کے ماہر ہیں۔ بلکہ ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے انڈیا کے طاقتور میڈیا کا بازو مروڑ کر اسے ’گودی میڈیا‘ بنا دیا ہے۔
مودی نے اپنی امیج سازی کے تحت ’چائے والا‘ کے طور پر مشہور کروایا اور کہا کہ وہ بچپن میں ریلوے سٹیشن پر پیٹ پالنے کے لیے اپنے والد کے چائے کے کھوکھے پر کام کیا کرتے تھے۔ اس کے دو فائدے ہیں، ایک تو یہ کہ لوگ انہیں اپنے جیسا سمجھیں، دوسرے یہ کہ ان کی قابلیت بھی سامنے آ جائے کہ چائے بیچنے والا ملک کا وزیرِ اعظم بن گیا ہے۔
لیکن بعد میں تحقیق سے پتہ چلا کہ ان کے والد کا کوئی چائے کا کھوکھا تھا ہی نہیں۔
البتہ مودی کو اس سے فرق نہیں پڑا اور انہوں نے انتخابی مہم کے دوران ’چائے پر چرچا‘ جیسے دلچسپ اقدامات کیے، جس کے تحت انہوں نے ملک بھر میں چائے کی دکانوں پر لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی۔
نوجوانی میں مودی ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) میں شمولیت اختیار کر کے اس کے پرچارک بن گئے تھے اور اس کے تحت انہوں نے برہمچاری بننے یعنی شادی نہ کرنے کا وچن بھی کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ بعد میں ان کی ایک عدد اہلیہ بھی نکل آئیں۔
برانڈ مودی کو سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فروغ دیا گیا۔ ان کی کرشماتی شخصیت اور مضبوط تقریری صلاحیتوں نے انہیں ایک پاپولسٹ لیڈر بنا دیا۔ وہ لوگوں سے جڑنے کا فن جانتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ ان کے دیوانے ہیں۔
مودی کی تقریریں اور بیانات فوراً وائرل ہو جاتے ہیں۔ ٹوئٹر، فیس بک، اور انسٹاگرام پر ان کے فالوورز کی تعداد کروڑوں میں ہے، جو ہر لمحے ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں۔
مودی میمز تخلیق کرنے کے فن کے ماہر ہیں۔ ان کے کئی فقرے عوام کی زبانوں پر چڑھ گئے۔ ان میں ’56 انچ کی چھاتی،‘ ’اگلا عشرہ بھارت کا ہے،‘ ’خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔‘ ’مودی ہے تو ممکن ہے،‘ وغیرہ۔
حالیہ انتخابات کے دوران مودی کی ایک اے آئی جنریٹڈ ویڈیو وائرل ہوئی جس میں انہیں بنگالی گانے پر ناچتا ہوا دکھایا گیا۔ بجائے برہم ہونے کے، مودی نے خود یہ ویڈیو ری ٹویٹ کر دی اور کہا کہ مجھے خود بھی اسے دیکھ کر مزہ آیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا ماضی کے انڈین وزیرِ اعظم نہرو، اندرا گاندھی یا من موہن سنگھ ایسا سوچ بھی سکتے؟
مودی کی امیج سازی میں ان کے پاکستان کے خلاف سخت رویے کا بڑا ہاتھ ہے۔ جب بھی ان کی مقبولیت میں کمی آتی ہے، وہ پاکستان کے خلاف بیانات دے کر خود کو عوام میں دوبارہ مقبول کر لیتے ہیں۔
ان کی 56 انچ کی چھاتی اور خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے جیسے پاکستان مخالف بیانات خوب وائرل ہوئے۔
لیکن وہ صرف بیانات تک محدود نہیں رہتے، 2019 میں بالاکوٹ پر حملہ اور اس سے قبل وہ 2016 میں لائن آف کنٹرول سے ادھر مبینہ ’سرجیکل سٹرائیک‘ کر کے پاکستان مخالف اقدامات کر چکے ہیں۔ ان کی فین بیس مودی کے اس ہارڈ لائن رویے کو خوب پذیرائی ملتی ہے۔
مودی نے انتہا پسند ہندو اکثریت کو لبھانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ انتخابات سے چند ماہ قبل ایودھیا میں رام مندر کی تکمیل ان کے اسی پروجیکٹ کا حصہ ہے۔
اس کے علاوہ ان کے مذہبی اور ہندو قوم پرستانہ بیانات بھی خاصی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ مودی کا موقف ہے کہ انڈیا ہزاروں سال پہلے بھی ترقی یافتہ ملک تھا۔
مثال کے طور پر انہوں نے کاغذ پر بنی ہوئے ہوائی جہاز کی ایک تصویر دکھائی اور دعویٰ کیا ہندوستان میں سینکڑوں سال قبل ہوائی جہاز اڑا کرتے تھے۔
مودی نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا کہ گاندھی کو دنیا میں کوئی نہیں جانتا تھا اور جب ان پر ہالی وڈ نے فلم بنائی تب لوگ انہیں جاننے لگے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے 20 سال میں انڈیا نے بڑی ترقی کی ہے۔ لیکن مودی سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کی بجائے سارے کا سارا کریڈٹ خود لینے کے ماہر ہیں۔
چنانچہ ہر ترقیاتی منصوبے، ہر عوامی سکیم، سرکاری پوسٹروں، حتیٰ کہ کووڈ ویکسینیشن کے سرٹیفیکیٹوں اور راشن کارڈوں پر ان کی تصویر لازمی چسپاں ہوتی ہے۔
مودی نے صرف انڈیا ہی میں نہیں، بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی پہچان بنانے پر بڑی توجہ دی ہے۔ ان کے عالمی لیڈروں سے لمبے لمبے مصافحے آپ کو یاد ہوں گے۔
امریکہ میں منعقد ’ہاؤڈی مودی‘ ایونٹ میں 50 ہزار لوگوں نے شرکت کی۔ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا جہاں مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک سٹیڈیم میں سٹیج پر نمودار ہوئے۔ اس سے یہ تاثر پیش کرنا تھا کہ مودی صرف انڈیا نہیں، امریکہ جیسے طاقتور ملک میں بھی مضبوط پہچان رکھتے ہیں۔
انہی تشہیری اقدامات اور امیج سازی نے مودی کو مسلسل تیسری بار انڈیا کی تقدیر کا مالک بنا دیا ہے۔ اور توقع ہے کہ وہ اگلے پانچ سال بھی انڈیا کو مشکلات کے مگرمچھوں سے بھری جھیل میں سے نکالنے والے ہیرو کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔