پاکستان وہ ملک ہے جہاں ایک مسئلہ حل کرنے کے لیے چھ نئے مسائل پیدا کر دیے جاتے ہیں۔ ایک ٹھیک کام کرنے کے لیے بھی غلط فیصلے اور غلط وقت کا انتخاب ایسے دھڑلے سے کیا جاتا ہے کہ جیسے 24 کروڑ عوام ’گائے بکری‘ ہیں، لیکن پھر شاید وہ کہاوت ایسے فیصلے کرنے والوں کی مدد کو آ جاتی ہے کہ ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔‘
پہلے تو اس ایکس نامی جانور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ اگر کئی آوارہ لفنگوں کا مسکن ہے تو بہت سے سنجیدہ معلومات کی جلد رسائی کے خواہاں افراد کا بھی اہم ذریعہ ہے۔ اس کے صارفین کی بڑی تعداد پڑھے لکھے ہونے کے ساتھ ساتھ خبروں اور سیاست میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔
برطانوی ادارے روئٹرز انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایکس دیگر پلیٹ فارمز کے مقابلے میں مین سٹریم برانڈز کے علاوہ سیاست سے متعلق خبروں کے لیے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔
رپورٹ کہتی ہے کہ اس بات کے کچھ شواہد موجود ہیں کہ لوگ ایکس پر سیاسی موضوعات کے ارد گرد متعصب، ہم خیال کمیونٹیز بنا لیتے ہیں۔ تاہم، یہ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ پلیٹ فارم استعمال کرنے کے نتیجے میں صارفین کو زیادہ متنوع خبروں اور نقطہ نظر سے روشناس ہونے کا موقع ملتا ہے۔
یہی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے حکومت نے ملک میں بڑھتے ہوئے ’سیاسی تقسیم اور انتشار‘ کے خاتمے کے لیے مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بڑا سا واقعی کاٹا لگا دیا۔ ماضی میں اگر یو ٹیوب تین سال تک بند رہ سکتا ہے تو ایکس پر بھی لمبی پابندی لگ سکتی ہے۔ یہ ایک طرح سے مسلم لیگ ن کی حکومت کی ساکھ پر ایک سیاہ دھبہ ہے اگر وہ سمجھیں تو۔ اس کے طعنے انہیں طویل عرصے تک سہنے پڑیں گے۔ سیاسی مخالفت کو ایکس پر دبانے کے کئی دوسرے طریقے ہو سکتے ہیں لیکن مکمل بندش شاید آخری اقدام تھا جو سب سے پہلے اٹھا لیا گیا۔
خیر ایکس پر پابندی لگانے پر پاکستان کوئی پہلی ملک نہیں ہے۔ اس سیاسی طور پر دنیا میں مقبول پلیٹ فارم پر 2011 میں مصر، 2014 اور 2024 میں ترکی اور ازبکستان نے 2021 کے صدارتی انتخابات کے دوران عارضی پابندیاں عائد کیں۔ یہ وہ سب ملک ہیں جو سیاسی طور پر مشکلات میں ان اوقات میں گھرے ہوئے تھے۔ لیکن بعض ایسے ممالک بھی ہیں جہاں سیاسی اظہار رائے کی آزادی نہ ہونے کے برابر ہے، انہوں نے اس کا گلا پہلے دن ہی گھونٹ دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چالاک چین نے جون 2009 میں ہی اس کی وجہ سے ممکنہ سیاسی خطرات کو بھانپتے ہوئے مکمل پابندی عائد کر دی جو آج تک برقرار ہے۔ ایران، شمالی کوریا اور ترکمانستان نے بھی اسی وقت اس کی حرکات دیکھ لی تھیں جبکہ روس کو اس کے خلاف قدم اٹھانے کی ضرورت یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد مارچ 2022 میں پیش آئی۔
پاکستان چونکہ دنیا میں اپنے آپ کو ایک جدید آزاد ریاست کے طور پر منوانے کا خواہش مند ہے اور ساتھ میں مطلق العنان رجحانات سے جان نہیں چھڑا پا رہا، اس لیے ہمیں اس قسم کے تضادات بار بار دیکھنے اور برداشت کرنے کو ملتے ہیں۔ فیصلے اگر چند با اثر لوگوں کی بجائے عوام پر چھوڑ دیا جائیں تو شاید یہ حالات دیکھنے کو نہ ملیں۔ لیکن ریاست غالبا پاکستانی نوجوان کو شاید ’سر پھری اور جذباتی‘ عوام سمجھتی ہے اور فیصلے ان پر چھوڑنے کو تیار نہیں۔
ایسے میں ایکس جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی نہ پہلی اور نہ آخری مرتبہ لگی ہے۔ اس ملک میں اختیار رکھنے والے بتاتے ہیں کہ ستر پچھتر سال تو کسی قوم کی زندگی میں کوئی زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ ان کے لیے یہ ایک لمبی جدوجہد ہے، تو مزید کی بھی توقع رکھنی چاہیے۔
لیکن اپنے غیر مقبول اقدام کے دفاع میں جو توجیہات پیش کی جا رہی ہیں وہ ہر کسی کو مزید پریشان کر رہی ہیں۔ یا تو پہلے دن ہی ایکس جیسے ’شیطان‘ کو گھر میں نہ چھوڑتے یا پھر اسے چلنے دیتے ہیں اور اپنے مضبوط بیانیے کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتے۔ خیر ایسا تو کچھ نہیں ہوا لیکن پاکستان میں ایکس کے کروڑوں صارفین کو اس کی عادت ہو چکی تھی ان کا یہ ’نشہ‘ اچانک ختم کرنا ممکن نہیں تھا۔ ایسے میں وی پی این نے دھماکہ خیز انٹری دی۔
خود وزیرِ اعظم، وزرا اور اعلیٰ فوجی حکام عوام کی یا اس سے زیادہ اپنے فیصلے کی پروا کیے بغیر دھڑلے سے غالباً وی پی این کے ذریعے ٹویٹس کرتے رہے۔ جب وی پی این نے ایکس تک رسائی کچھ لوگوں کے لیے بحال کی تو اب اس کا بھی کچھ تو کرنا تھا۔ تحریک انصاف کے اکثر صارف بیرون ملک سے جو کہنا اور کرنا تھا اس پلیٹ فارم پر انہوں نے جاری رکھا، بدقسمتی صرف ملک کے اندر رہنے والے صارفین کی تھی کہ انہیں باخبر رہنے کے ایک اہم ذریعے سے محروم ہونا تھا۔ پھر فائر وال کا سنا گیا اور اب بات وی پی اینز پر پابندی تک پہنچ گئی ہے۔
اب ایک سیاسی جماعت کے بیانے کو مات دینے کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی حرکت میں آئی اور وی پی این کے دہشت گردی میں استعمال کا جواز بتایا۔ حکومت اور ریاستی اداروں کا موقف تو یہ رہا ہے کہ دہشت گرد دوسرے ممالک سے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اگر دہشت گرد باہر ہیں تو پاکستان میں کیسے 'وی پی این' استعمال کر رہے ہیں؟ بات یہاں تک رہتی تو شاید ٹھیک ہوتی لیکن صارفین کی ایک بڑی تعداد کو فحش مواد کا عادی بھی قرار دے دیا گیا۔
اس میں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ دنیا بھی میں فحش مواد دیکھا جاتا ہے۔ جب انٹرنیٹ نہیں تھا تو تب بھی اس ملک میں اس قسم کے غیرملکی رنگین میگزین اور رسائل مل جاتے تھے۔ یہاں اس کے استعمال کا دفاع مقصد نہیں بلکہ ظاہر کرنے کی کوشش ہے کہ یہ رجحان طویل عرصے سے موجود ہے لیکن پی ٹی اے کو اس کا خیال اب اچانک کیوں آیا؟ اس کے بیان کے مطابق پاکستان سے دو کروڑ مرتبہ فحش مواد تک رسائی کی کوشش کی جاتی ہے، تو یہ مسئلہ کوئی آج کا تو نہیں؟ پھر وی پی این پر پابندی آج کیوں؟
وی پی این کے ایکس پر پابندی سے قبل بھی یہ سب کچھ جاری تھا، اس وقت اس کا اعتراف کیوں نہیں کیا گیا؟ جواب یقینا فحش مواد کی ویب سائٹس پر روزانہ کی بنیاد پر پابندی ہو گا لیکن اس مسئلہ کو اب کیوں ہائی لائٹ کیا گیا؟
پھر اس سیاسی مسئلہ میں مذہبی ادارے کو لانا بھی غلط وقت پر غلط فیصلہ تھا۔ سوچیں اگر حکومت مخالفین بلیو سکائی اور تھرڈز جیسے نئے پلیٹ فارم پر چلے گئے تو کیا انہیں بھی بند کر دیا جائے گا؟
اس ملک کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ اس کی منزل کیا ہے اور اس منزل تک پہنچنے کے لیے راستہ کون سا اختیار کرنا ہے۔ اس کے لیے شاید موجودہ وقت بھی موزوں نہیں لیکن یہ تعین اگر جلد کر لیا جائے تو ابہام بھی ختم ہو گا اور لوگ زیادہ یکسوئی کے ساتھ متفقہ طور پر طے شدہ منزل تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔