ہتک عزت قانون: تین دفعات پر عمل عدالتی فیصلے سے مشروط

عدالت نے ہتک عزت قانون کے سیکشن تین، پانچ اور آٹھ  پر عمل درآمد عدالتی فیصلے سے مشروط کرتے ہوئے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو معاونت کے لیے نوٹسز بھی جاری کیے۔

 پنجاب اسمبلی میں 23 فروری 2024 کو حلف اٹھانے کے لیے نو منتخب اراکین اسمبلی ایوان میں پہنچ رہے ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

لاہور ہائی کورٹ نے منگل کو پنجاب میں حال ہی میں متعارف کرائے جانے والے ہتک عزت کے قانون کی تین دفعات پر عمل درآمد کو عدالتی فیصلے سے مشروط کر دیا ہے۔

پنجاب میں ہتک عزت کے قانون کے خلاف دائر درخواست پر سماعت منگل کی صبح لاہور ہائی کورٹ میں ہوئی۔

لاہور ہائی کورٹ میں ہتک عزت بل کے خلاف درخواست دو صحافیوں جعفراحمد یار اور ریاض احمد راجا نے وکیل ندیم سرور کے ذریعے دائر کی تھی جس کی سماعت جسٹس امجد رفیق نے سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس امجد رفیق نے سوال کیا کہ یہ قانون کیسے آزادی اظہار رائے اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے؟

اس پر درخواست گزار کے وکیل  ندیم سرور نے جواب دیا کہ ’اس قانون کے تحت آپ بغیر کسی ثبوت کے  کارروائی کرسکتے ہیں۔‘

جسٹس امجد رفیق کا کہنا تھا کہ ’اگر وزیر اعلیٰ کوئی بیان دے تو آپ اس کو عدالت لے آئیں یہ غلط بات ہے۔‘

اس پر ایڈوکیٹ ندیم سرور نے جواب دیا کہ ’وزیر اعلیٰ جھوٹ نہ بولے۔‘

ایڈوکیٹ ندیم سرور کا کہنا تھا کہ ’وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری  صبح سے لے کر شام تک جھوٹ بولتی ہیں۔ اس قانون میں ٹرائل سے قبل ہی ملزم کو 30 لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے۔‘

اس پر جسٹس امجد رفیق نے کہا کہ ’قانون کے مطابق یہ ہوسکتا ہے تاکہ انصاف کی فراہمی کو تیز کیا جاسکے۔‘

عدالت نے ہتک عزت قانون کے سیکشن تین، پانچ اور آٹھ  پر عمل درامد عدالتی فیصلے سے مشروط کرتے ہوئے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو معاونت کے لیے نوٹسز بھی جاری کیے اور ساتھ ہی ساتھ پنجاب حکومت سمیت دیگر کو بھی نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے۔

ہتک عزت بل کی سیکشن تین

ہتک عزت قابل عمل: اس ایکٹ کی دفعات اور اس وقت کے لیے کسی دوسرے قانون کے تحت، ہتک عزت ایک شہری غلطی ہوگی اور ہتک عزت کرنے والا شخص اس ایکٹ کے تحت اصل نقصان یا نقصان کے ثبوت کے بغیر کارروائی شروع کر سکتا ہے اور جہاں ہتک عزت ثابت ہو۔

ہتک عزت بل کی سیکشن پانچ

مطلق استحقاق: وفاقی یا صوبائی مقننہ میں دیے گئے بیان کی کوئی اشاعت، رپورٹس، کاغذات، نوٹس اور کارروائی جو پارلیمنٹ کے ایوان یا صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے شائع کرنے کا حکم دیا گیا ہو، یا عدالتی کارروائی یا ریکارڈ یا کوئی رپورٹ، نوٹ یا حکومت کی طرف سے یا اس کے تحت لکھی یا شائع کی گئی بات کو مکمل استحقاق کا تحفظ حاصل ہوگا۔

ہتک عزت بل کی سیکشن آٹھ

 ٹربیونل کا قیام: حکومت، سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعے اس ایکٹ کے تحت اپنے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹربیونلز قائم کر سکتی ہے اور ایسے ہر ٹربیونلز کے لیے ایک رکن کا تقرر کر سکتی ہے اور جہاں وہ ایک سے زیادہ ٹربیونلز قائم کرتی ہے، وہ اس نوٹیفکیشن میں علاقائی حدود کی وضاحت کرے گی۔ جو اس ایکٹ کے تحت اس طرح کے ٹربیونلز میں سے ہر ایک اپنے اپنے دائرہ اختیار کا استعمال کرے گا۔

سیکشن آٹھ میں مزید کلاز اور سب کلاز شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف اور صحافتی تنظیموں کے تحفظات اور احتجاج کے باوجود صوبائی حکومت کا پیش کردہ ہتک عزت بل 20 مئی 2024 منظور ہوگیا تھا۔

قائم مقام گورنر پنجاب ملک احمد خان نے چند روز قبل بل پر دستخط کیے تھے، پیر 10 جون کو پنجاب اسمبلی کی جانب سے اس بل کا گزٹ نوٹیفکیشن  بھی جاری کر دیا گیا تھا جس کے بعد  ہتکِ عزت قانون پنجاب میں فوری نافذ العمل ہوگیا ہے۔

دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر نے  بھی ہتک عزت بل کو عدالت میں چیلنج کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔

یہی نہیں بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی ہتک عزت بل کی منظوری پر نالاں دکھائی دیتی ہے۔

پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے جنرل سیکریٹری حسن مرتضیٰ نے بھی پیر کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ صحافیوں کا احتجاج  سر آنکھوں پر پاکستان پیپلز پارٹی ہتک عزت بل پر میڈیا کو مطمعن کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہتک عزت بل کی تیاری میں پیپلز پارٹی سے مشاورت نہیں کی گئی ہمیں تو اس وقت بتایا گیا جب وہ ہاؤس میں چلا گیا۔ اسی روز ہاؤس میں بل لا کر اسے منظور کروایا گیا جبکہ اس وقت پیپلز پارٹی کا ایک بھی رکن ایوان میں موجود نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک قائم مقام گورنر نے بل منظور کیا اور ہمیں سننے کو ملا کہ بل باہمی رضا مندی سے منظور کروایا گیا ہے۔

پنجاب اسمبلی میں منظور ہونے والے ہتک عزت بل 2024 کے تحت ٹی وی چینل اور اخبارات کے علاوہ فیس بک، ٹک ٹاک، ایکس، یوٹیوب، انسٹاگرام پر بھی غلط خبر یا کردار کشی پر 30 لاکھ روپے ہرجانہ ہوگا۔

کیس سننے کے لیے ٹریبونلز قائم کیے جائیں گے جو 180 دنوں میں فیصلے کے پابند ہوں گے، آئینی عہدوں پر تعینات شخصیات کے کیسز ہائی کورٹ کے بینچ سنیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان