امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے جمعرات کو ہونے والی ملاقات میں نہ صرف ’دہشت گردی‘ کے خلاف عزم کا اظہار کیا بلکہ واشنگٹن نے 2008 کے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں ایک پاکستانی نژاد کینیڈین شہری کی انڈیا کو حوالگی کا بھی اعلان کیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا: ’مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ میری انتظامیہ نے انڈیا میں انصاف کا سامنا کرنے کے لیے 2008 کے ممبئی دہشت گردانہ حملے سے تعلق رکھنے والے ایک سازشی اور دنیا کے انتہائی برے افراد میں سے ایک کی حوالگی کی منظوری دے دی ہے۔ وہ انصاف کا سامنا کرنے کے لیے انڈیا واپس جا رہے ہیں۔‘
امریکی صدر نے پریس کانفرنس میں اس شخص کا نام نہیں لیا لیکن بعد میں فریقین کے مشترکہ بیان میں ان کی شناخت پاکستانی نژاد شکاگو کے تاجر اور کینیڈین شہری تہور رانا کے طور پر کی گئی۔
تہور رانا کے حوالے سے اب تک پاکستان کی جانب سے کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا اور انڈپینڈنٹ اردو نے تبصرے کے لیے وزارت خارجہ سے رابطہ کر رکھا ہے۔
انڈین وزارت خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق دونوں سربراہان کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ ’دہشت گردی جیسی عالمی لعنت کا بھرپور مقابلہ کیا جانا چاہیے اور دنیا کے ہر گوشے سے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کی جانی چاہییں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ اور مودی نے القاعدہ، داعش، جیش محمد، اور لشکرِ طیبہ جیسے گروہوں کی جانب سے لاحق دہشت گردی کے خطرات کے خلاف تعاون کو مزید مضبوط کرنے کا عزم ظاہر کیا تاکہ 26 نومبر 2008 کے ممبئی حملوں اور 26 اگست 2021 کو افغانستان میں ایبی گیٹ بم دھماکے جیسے سنگین جرائم کو روکا جا سکے۔
بیان میں یہ مشترکہ خواہش ظاہر کی گئی کہ ’جو بھی ہمارے شہریوں کو نقصان پہنچائے، اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘
مزید برآں دونوں رہنماؤں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ 26 نومبر کے ممبئی حملوں اور پٹھان کوٹ حملے کے ذمہ داروں کو فوری طور پر انصاف کے کٹہرے میں لائے اور یہ یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین سرحد پار دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔
دوسری جانب اسلام آباد نے ٹرمپ اور مودی کی مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستان کے حوالے کو ’گمراہ کن‘ قرار دیا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے جمعے کو ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا: ’ہم 13 فروری 2025 کو انڈیا اور امریکہ کے مشترکہ بیان میں پاکستان کے مخصوص حوالے کو یک طرفہ، گمراہ کن اور سفارتی اصولوں کے منافی سمجھتے ہیں۔‘
پاکستان متعدد مواقعوں پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عالمی کوششوں کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کرچکا ہے۔
ٹرمپ اور مودی نے یہ عہد بھی کیا کہ وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے نظام کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مل کر کام کریں گے اور دہشت گردوں اور غیر ریاستی عناصر کو ان ہتھیاروں تک رسائی سے محروم رکھیں گے۔
تہور رانا کون ہیں؟
اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق تہور حسین رانا پاکستانی نژاد تاجر، معالج اور امیگریشن کے شعبے میں کاروبار کرنے والے شخص ہیں جنہیں انڈیا کی تاریخ کے خوفناک ترین دہشت گرد حملوں میں سے ایک، 26 نومبر 2008 کے ممبئی حملوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔
ممبئی حملوں میں ان کے مبینہ کردار کا معاملہ کئی سال سے انڈیا اور امریکہ کے درمیان تنازعے کا سبب بنا رہا ہے۔
ممبئی حملوں کے دوران مسلح افراد نے کئی عمارتوں پر حملہ کیا تھا، جن میں 166 افراد جان سے چلے گئے تھے۔ تہور رانا پر الزام ہے کہ انہوں نے ان حملوں میں معاونت فراہم کی تھی۔
’ڈی ڈبلیو‘ کے مطابق تہور رانا کو 2013 میں امریکہ میں اپنے دوست ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے ساتھ ممبئی حملوں اور ڈنمارک میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا مجرم پایا گیا تھا۔
ان مقدمات میں تہور حسین رانا کو امریکی عدالت نے 14 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ہیڈلی بعد میں وعدہ معاف سرکاری گواہ بن گئے تھے۔
پاکستانی نژاد کینیڈین شہری رانا کو 2009 میں امریکی ایف بی آئی نے اس وقت گرفتار کیا تھا، جب وہ ڈنمارک جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ اس وقت امریکہ کی جیل میں قید ہیں۔